قربان بلوچ
سابق آمر جنرل پرویزمشرف کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے بلوچستان میں حالات سخت خراب ہوئے تا حال سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ اب وہی صورتحال سندھ میں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے وہ کون سے اہل دانش ہیں جو موجودہ حکومت کو ایسے کام کروا رہے ہیں۔
اس جدید الیکٹرانک دور میں اپنے کرتوتوں کو کس طرح چھپایا جا سکتا ہے۔پچھلے ایک ہفتے کے دوران سندھ میں دو اہم پیش رفت ہوئی ہیں جس میں ایک واقعہ سندھی زبان کے معروف قوم پرست دانشور تاج جویو کے جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ایوارڈ لینے سے انکار اور دوسرا کراچی کے مبینہ ترقی کیلیے پہلے نگران اور بعد میں کراچی کوآرڈینیشن کمیٹی کے نام سے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ ہے۔ جس کا پی پی پی کی سندھ حکومت نے پہلے نہ فقط اعتراف کیا مگر بعد میں کمیٹی کے قیام پر شکوک کی مختلف آوازیں آنے لگیں۔ بات یہاں تک آئی کے پی پی پی کے کارکنوں نے اس عمل کو کراچی پر قبضہ کا نام دیکر سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں ساتھ ساتھ مظاہرے بھی کیے جارہے ہیں ۔
پہلے ان دو پیش رفتوں کامختصر جائزہ لیتےہیں کہ آخر سندھ کے دوسرے معروف دانشور تاج جویو کون ہیں اور انہوں نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی لینے سے انکار کیوں کیا؟
تاج جویو بنیادی طور پر تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں لیکن وہ بنیادی طور پر قوم پرست رہنما جی ایم سید کے نظریے سے متاثر رہے ہیں۔ نتیجے میں ایک بار ملازمت گنوا کر جیل بھی کاٹ چکے ہیں ۔وہ سندھی ادب سے منسلک رہے ادب کے ساتھ تنقید نگاری پر بھی دسترس رکھتے ہیں ۔تاج جویو پہلے سندھی ادیب نہیں جنہوں نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی لینے سے انکار کیا ہو، اس سے پہلے جی ایم سید کے ایک اور پیروکار سندھ کے معروف تاریخ نویس اور مترجم عطا محمد بنبھرو نے بھی آصف علی زرداری کےصدارتی دور میں ان سے یہ ایوراڈ لینے سے انکار کیا تھا ۔
تاج جویو نے اس وقت ایوارڈ نہ لینے کا اعلان کیا جب ان کے بیٹے سارنگ جویو کو کراچی میں ان کے گھر سے کچھ لوگ اٹھاکر لے گئے تھے، جسے ایک بڑے احتجاج کے بعد آزاد کردیا گیا، جبکہ مرحوم عطا محمد بھنبھرو کے بیٹے راجا داہر کو مرکز میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پی پی پی کے دور حکومت میں اٹھا لیا گیا جس کی بعد میں مسخ شدہ لاش ملی تھی۔عطا محمد بیٹے کے مسخ شدہ لاش کا بوجھ اٹھائے رواں سال چار جون کو وفات پاگئے لیکن موت سے پہلے ریاست کیلئے ایک دکھ بھرا پیغام اس وصیت کے شکل میں چھوڑ گئے کہ ان کی موت کے بعد ان کی قبر کو زنجیریں پہنائی جائیں کیونکہ وہ ایک غلام کی صورت میں وفات پا رہے ہیں۔
تاج جویو کے بیٹے سارنگ جویو کو گیارہ اگست کو گھر سے بیوی اور کمسن بچے کے سامنے نصف شب کو اٹھایا جاتا ہے اور چودہ اگست کو ان کے والد تاج جویو کیلئے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا جاتا ہے، تاج جویو کا ایوارڈ نہ لینے کا بظاہر سبب تو بیٹے کو ویگوسواروں کے طرف سے اغوا تصور کیا جاتا رہا لیکن تاج جویو کا موقف رہا کہ ایک ایسے وقت میں ان کیلئے صدارتی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا جب سندھ میں سینکڑوں لوگ لاپتہ ہیں۔انھوں نے کہا کہسنہ2017میں کئے گئے مردم شماری کے اعدادو شمارتبدیل کرکے سندھ میں قومیتی توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو ایسے ماحول میں میرا ضمیر گوارہ ہی نہیں کرتا کہ میں تمغہ حسن کارکردگی لیتا پھروں ۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ تاج جویو کو فون کرکے بتایا گیا ہے کہ اس کے بیٹے کا زیبسٹ کراچی میں دفتر بند کردیا گیا ہے اور اسکی ملازمت بھی جاسکتی ہے ۔ اس حوالے سے ٹوئٹر پر مختصر وڈیو جاری کرتے ہوئے تاج جویو نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ایسی صورتحال کا اندازہ تھا اس لیےانہوں نے بیٹے کیلئے رکشہ خرید لیا ہے، اب ان کا بیٹا رکشہ چلا کر اپنا روزگار کرے گا۔
سندھ میں ایسی صورتحال کیوں پیدا ہوئی ؟ اس سوال کا جائزہ لینے کیلئے ہمیں صوبے کے ماضی میں جانا پڑیگا۔سندھ میں مختلف ادوار میں قوم پرست سیاست میں اتار چڑھاؤ آئے۔ قیام پاکستان کے بعد قوم پرست سیاست کا عروج پچاس کی دھائی کے آخر میں ون یونٹ نافذ ہونے کے بعد ہوا، عوامی احتجاج کی وجہ سے ون یونٹ ختم کرنا پڑا۔سندھ میں قوم پرست سیاست شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کمزور ہوئی لیکن ڈکٹیٹر ضیا الحق کے مارشل لا اور شہید بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد سندھ میں مرکزیت پر یقین
رکھنے والی جماعتیں بھی سندھ میں سائیں جی ایم سید کاوہ نظریہ بیچنے پر مجبور ہوئیں، جس میں قوم پرست جماعتوں کا موقف تھا کہ ملک میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے نتیجے میں باقی قومیں سندھی ،بلوچ پختون اور سرائیکی محکوم ہیں۔
وفاقی سیاست پر یقین رکھنی والی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی نہ صرف سندھ میں قوم پرست بیانئے پر ووٹ لیا بلکہ کبھی کبھی اسٹیبلشمنٹ کو یہ دھمکی بھی دیتی رہی کہ اگر اسے اسپیس نہ دیا گیا تو صوبے میں علیحدگی پسند قوتیں مضبوط ہوجا ئیں گی نتیجے میں وفاق کو نقصان ہوگا ۔
جی ایم سید کی زندگی کے آخری ایام اور شہید بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں سندھ میں قوم پرست سیاست تقریبا تعلیمی اداروں تک محدود ہوچکی تھی ،جی ایم سید کے انتقال کے بعد تو قوم پرست سیاست مزید کمزور ہوئی کیوں کے سائیں جی ایم سید کے پیروکار مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئے لیکن صوبے کے بڑے شہروں خصوصا کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ نامی جماعت کو منظر پر لانے کے ساتھ ساتھ ان سے ملک کے معاشی مرکز کراچی میں سب سے پہلے پختونوں ،دوسرے مرحلے میں پنجابیوں کے ساتھ لڑانے والے اور آخرکار سندھیوں کا قتل عام کروایا گیا جس کی وجہ سے ایک طرف نہ فقط شدت پسندی کی شکل میں حیدرآباد میں تیس ستمبر جیسے سانحات نے جنم لیا تو دوسری جانب بشیر خان قریشی جیسا اعتدال پسند سائیں جی ایم سید کے متبادل کے طور پر قوپرست رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ جس کی اعتدال پسند سیاست کی وجہ سے سندھ کے لوگوں خصوصا سندھیوں میں اس بیانئے کو تقویت ملی کہ مجموعی طور پر حکمران طبقہ اس ملک میں رہنی والی قوموں کو حقوق دینے میں رکاوٹ ہےجس کی پشت پناہی اسٹیبلشمینٹ کر رہی ہے۔
مختلف قوموں کے خلاف نفرت میں کمی لانے اور صوبے کی سرزمین کو ماں سمجھ کر بقا باہمی سے رہنے کے نعرے کو پروان چڑھانے والے اعتدال پسند قوم پرست رہنما بشیر خان قریشی اچانک رات کے اندھیرے میں پراسرا ر طور پر انتقال کرگئے، یہ ابھی تک راز ہی رہا کہ ان کی موت فطری تھی یا کوئی قتل تھا؟ بشیر خان قریشی کی اعتدال پسند سیاست کے ثمرات تھے کہ اس کی موت کا الزام بڑی حد تک پنجابی اسٹیبلشمنٹ پر نہیں لگا اور پاکستان میں بسنے والے قوموں میں بقا ئے باِہمی برقرار رہی لیکن اس کے بعد اچانک صوبے کے اندر سندھی نوجوانوں کو اٹھانے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے ۔جس نے سندھ کے اندر ریاست کے خلاف ایک بار پھر نفرت پیدا کرنی شروع کردی ہے ۔
تاریخ نویس عطا محمد بنبھرو کے بعد ادیب تاج جویو کے طرف سے ریاستی ایوارڈ تسلیم نہ کرنا سندھ کے نوجوانوں میں ایک بار پھر ریاست کے رویےسے پیدا ہونے والے شکایات کے وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ کا نتیجہ ہے ،اگر تاج جویو کے بیٹے کو نہ اٹھایا جاتا تو شاید وہ ایوارڈ لینے سے انکار نہ کرتا۔
بات فقط یہ نہیں کہ سندھ کے نوجوانوں اور باشعور طبقے کو دیوار سے لگانے سے ریاست مخالف لہر اٹھی ہے لیکن پیدا ہونے والے غصے کو وہ سیاسی جماعتیں صوبے کے وحدت کے خلاف وفاق کے طرف سے مبینہ سازشیں ہونے کا نعرا لگا کر کیش کروا رہی ہیں جو اقتدار کے مزے بھی لیتے ہیں تو سندھ میں بڑے قوم پرست ہونے کی بھی دعویدار ہے۔ اس کی تازہ مثال کراچی کے مسائل حل کرنے کیلیے بننے والے کمیٹی پر سندھ کے حکمران جماعت پی پی پی اور وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی جی ڈی ای، جنہوں نے اقتدار کے مزے لینے کے ساتھ ساتھ اس معاملے پر صوبے کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی تو اس پر طاقتور فورسز کے کہنے پر راضی بھی ہو گئیں۔ لیکن صوبے کے لوگ اس عمل کو صوبے پر ایک مرتبہ پھر ون یونٹ نافذ کرنا تصور کرتے ہیں ۔
پاکستان میں سیاست بڑی سفاک ہے ،کراچی کے مسائل حل کرنے کیلیے میڈیا رپورٹس کے مطابق پی پی پی راضی تو پندرہ اگست کو ہوگئی تھی،جس کا اعتراف صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب نے کیا۔ لیکں تھوڑی دیر کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات ناصرشاہ نہ صرف مکر گئے بلکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک پریس کانفرنس میں سندھ کی وحدت کو پارٹی کی حکمرانی سے افضل قرار دے دیا اور وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے سندھ کو تقسیم کرنے کے کسی بھی سازش کی سخت مزاحمت کا اعلان کردیا ۔ جو صوبے میں بسنے والے ہر محب وطن کا نعرہ ہے۔
لیکن اس عمل میں مزیدار بات یہ ہے کہ پی پی پی کراچی پر وفاق کے طرف سے مبینہ طور قبضے کے خلاف سترہ اگست کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور اس دن دو پہر کو پارٹی کارکن وفاقی حکومت اور اس کے اتحادی ایم کیو ایم کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے اس وقت وزیر اعلی سندہ سید مراد علی شاہ اسلام آباد میں صوبائی وزرا سید ناصر شاہ اور سعید غنی کے ہمراہ وفاقی وزیر اسد عمر ،علی حیدر زیدی اور ایم کیو ایم کے سید امین الحق کے ساتھ اسلام آباد میں کراچی کوآرڈینیشن کمیٹی کے چھ نقاطی ٹی او آرز طے کر رہے تھے اور کمیٹی کے قیام پر اتفاق کی پریس ر یلیز بھی پہلے وزیر اعلی ہاؤس سندھ سے جاری ہوئی ۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے کمیٹی کے قیام اور ذمہ داریوں کے تفصیلات بعد میں پریس کانفرنس کے دوران جاری کرتے ہوئے یہ کہہ کر کراچی والوں پر احسان کردیا کہ پی پی پی تو ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اس کے ساتھ بیٹھ کر زہر کا گھونٹ پی رہے ہیں،مگر دوسری طرف پی پی پی نے شرمندگی مٹانے کیلیے یہ دعویٰ کردیا کہ بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کوآرڈینیشن کمیٹی پورے صوبے کیلئے ہے،جس سے صوبے کو فائدہ ہوگا۔
ایسی صورت میں جب سیاسی جماعتیں پارٹی مفادات کیلیے ریاست کے استحکام کو داؤ پر لگانے سے بھی باز نہ آئیں ان حالات میں سندھ کے نوجوانوں کو اٹھا کر ان میں سے کچھ کے مسخ لاشیں پھینک کر کون ریاست کی خدمت کر رہا ہے ؟ یہ ریاستی اداروں کیلیے نہ فقط سوچنے کی بات یے لیکن لمحہ فکریہ ہے۔
♦
One Comment