پاکستانی صحافی احمد نورانی نے عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے تیزی سے بڑھتے کاروبار پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک تحقیقاتی رپورٹ ’فیکٹ فوکس‘ نامی ویب سائٹ پر شائع کی۔رپورٹ شائع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد عاصم باجوہ نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2002 سے قبل عاصم سلیم باجوہ ان کی اہلیہ، بیٹوں اور بھائیوں کے نام پر کوئی کاروبار نہ تھا۔ لیکن یہ صورتحال تب تبدیل ہونا شروع ہو گئی جب وہ سابق پاکستانی صدر اور فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کے اسٹاف آفیسر تعینات ہوئے۔ احمد نورانی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ عاصم باجوہ کی اہلیہ نے امریکا، متحدہ عرب امارات اور کینیڈا میں سرمایہ کی ہوئی ہے حالانکہ انہوں نے اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات میں کہا ہےکہ ان کی اور ان کی بیوی کی پاکستان سے باہر کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔
احمد نورانی کہتے ہیں کہ عاصم باجوہ کے بیٹے نے اس وقت ایک مائننگ کمپنی شروع کی جب باجوہ بلوچستان میں جنوبی کمانڈ کے کمانڈر تھے۔ پاکستان میں ان کے بھائی جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں نے بھی اسی دور میں ‘لیبر اینڈ مین پاور سپلائی‘ کمپنی کا آغاز کیا۔ اس رپورٹ میں احمد نورانی مزید کہتے ہیں کہ عاصم باجوہ کی اہلیہ سمیت ان کے خاندان کے افراد ‘باجکو ٹیلی کام‘ اور ‘فاسٹ ٹیلی کام‘ کے مالک ہیں۔ یہ کمپنیاں ایس ای سی پی میں رجسٹر نہیں ہیں لیکن بہت متحرک کمپنیاں ہیں۔
احمد نورانی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس تحقیقاتی رپورٹ کے دوران عاصم باجوہ سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ انہیں ان کمپنیوں کے فنانشنل ریکارڈ فراہم کریں لیکن انہوں نے احمد نوارنی کو کوئی جواب نہ دیا۔ احمد نوارنی یہ بھی کہتے ہیں عاصم باجوہ جب بلوچستان کی جنوبی کمانڈ کے سربراہ تھے اس دور میں ان کے خاندان نے امریکا میں دس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ احمد نوارانی نے اس رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ سب شروع کیسے ہوا؟ کمپنیاں کھولنے اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے اتنا پیسہ آیا کہاں سے اور تین ہفتے تک رابطہ کرنے کی کوششوں کے باوجود عاصم باجوہ خاموش کیوں رہے۔
اس رپورٹ کے شائع ہونے کے ساتھ ہی سوالات اور تنقید کا ایک ایسا پنڈورا باکس کھل گیا اور ٹوئٹر پر مسلسل ‘عاصم باجوہ‘ اور ‘باجوہ لیکس‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ان کی حمایت اور مخالفت میں بحث کر رہے ہیں۔کئی صارفین یہ سوال پوچھتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آیا اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد پاکستان کی طاقتور فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی؟
دوسری طرف جنرل باجوہ کی حمایت کرنے والے صارفین اس رپورٹ اور اس کے بعد پوچھے جانے والے سوالات کو ملکی فوج اور سی پیک کے خلاف مبینہ ‘بھارتی پراپیگنڈا‘ قرار دے رہے ہیں۔پاکستانی فوج کے سابق جنرل نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ”ایک غیر معروف ویب سائٹ پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف پرپیگنڈا کہانی شائع کی گئی، جس کی پرزور تردید کی جاتی ہے۔‘‘۔
اسی ٹویٹ کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے لکھا، ”جنرل صاحب معذرت۔ رپورٹ کو مسترد کرنا تو ٹھیک ہے لیکن عوامی عہدیدار ہونے کے ناطے ایک سطری انکار کافی نہیں ہے‘‘۔
پاکستانی محقق عائشہ صدیقہ نے لکھا، ”زیادہ بہتر یہ ہو گا اگر وہ (عاصم باجوہ) اب اپنے ان تمام اثاثوں کی، جو قانونی طور پر ان کے نام ہیں یا نہیں ہیں، تفصیلات پیش کریں۔ بہتر ہے کہ پارلیمان میں پیش کی جائیں‘‘۔
گلالئی اسماعیل نے لکھا، ”عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کے بیانیے پر الیکشن لڑا، کیا اب وہ عاصم باجوہ سے منی ٹرائل مانگیں گے؟‘‘۔
dw.com/web desk