حسن مجتبیٰ
یہ ملک پاکستان پر لاولد ضیا الحق کی ولم یولد مارشل کے اوائلی دن تھے۔ ہر طرف پھانسیاں کوڑے اور ٹکٹکیاں سجی تھیں۔ لیکن لوگوں نے تین جنوں کو کاندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ ایک بی بی سی کا نمائندہ حضرت مارک ٹلی، دوسرا روزنامہ امن میں کالم “تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی” لکھنے والا فرضی نام جمعہ خان،اور تیسرا جنرل ریٹائرڈ ٹکا خان۔
کم از کم سندھ کی حد تک تو ایسا ہی تھا۔ یہ دن تھے جب بھٹو کو پھانسی آنے والی تھی اور بھٹو کو پھانسی آ چکی تھی۔ تب واقعی گھر گھر سے بھٹو نکلے گا لگا ہوا تھا۔ اگرچہ امن اخبار کا جمعہ خان دیکھا تو کسی نے نہیں تھا کہ وہ کون تھا؟لیکن سندھ کے جیالے اخبار بینوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا ہوا تھا۔ تب جیالا اور اخبار بین تو کسی ایک پارٹی تک محدود نہیں تھا۔ سب جیالے اور سب امن اخبار اور اس میں بھی جمعہ خان کاکالم پڑھا کرتے۔ تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی۔
اگر میرے دوست پنہوں منگنہار سے پوچھتے کہ جمعہ خان کون ہے؟ وہ کہتا “جمعہ خان میرا باپ ہے”۔ پنہوں منگنہارپیارا ساتھی اور کلاسیکی منگنہار۔ کوئی کہتا جمعہ خان امن کا خود ایڈیٹر افضل صدیقی ہے اور کوئی کہتا کہ نہ جی نہ یہ اجمل دہلوی خود ہیں۔ ہم میں سے کچھ سندھی امن اخبار پڑھنے والے دل کو بہلانے کو خیال اچھا ہے کی مصداق کہا کرتے ہو نہ ہو یہ ہلال پاکستان اخبار کے سابق مدیر سراج الحق میمن کے علاوہ کوئی ایسا ذہین و فطین قلمکار ہو نہیں سکتا۔
اور جب ذوالفقار علی بھٹو کا چہلم آیا تو جیالوں اور بھٹو کے غمگساروں نے مارک ٹلی کو کاندھوں پر اٹھالیا۔ تب مارک ٹلی کی رپورٹیں لوگ شوق کیا جنون سے سنا کرتے کہ وہی ایک اسوقت سچ کہنے والا یا معروضی رپورٹر تھا جو ضیا فوجی راج کی درست خبریں پہنچا رہا تھا۔ حالانکہ یہی مارک ٹلی ابھی کچھ ماہ پہلے تک پی این اے کے بھٹو خلاف جلوسوں اور ہڑتالوں میں لاٹھی چارجوں اور آنسو گیس کے بیچ رپورٹنگ کرتا دیکھا گیا تھا۔ تب وہ پی این اے یعنی نو ستاروں والوں کاہیرو تھا۔ اسی لیے تو ان دنوں تب بھٹو کے حمایتی علامہ نصیر الاجتہادی نے ایک جلسے میں کہا تھا “نو ستارے اور دسواں ستارہ بی بی سی”۔
پھر بھٹو کی جب پہلی برسی آئی تو ٹکاخان بھی اپنی نظربندی بھگت کر باوجود پہروں اور تمام پابندیوں کے گڑہی خدا بخش کس طرح پہنچا؟ اسکی روداد ٹکا خان کی زبانی نقل کر کے ہمارا دوست اور بینظیر کا پہلا پولیٹیکل سیکریٹری اشرف میمن سنایا کرتا۔ اور کیسے ٹکا خان کی اپنے ہر دوسرے تیسرے جملے میں ضیا الحق اور اسکے جرنیلی ٹولے کے اراکین کو تھانیداروں جیسی اک موٹی تازہ گالی بات بات پر۔
جب بینظیر اپنی ستر کلفٹن میں نظربندی ختم کر کر براستہ بولان میل کراچی سے لاڑکانہ پہنچی تو اس تاریخی سفر میں اشرف میمن بھی اسکے ساتھ تھا۔ بینظیر جو اندرا گاندھی سمیت سب کی نقلیں اتارنے میں ماہر تھی تو اشرف بینظیر کی بھی اچھی نقلیں اتارا کرتا۔ اشرف میرے محبوب دوست سیف بنوی کا یار غار تھا اور سیف کی نسبت مجھ سے بھی محبت رکھتا تھا۔ وہ پھر بھٹو کی ایک برسی پر گڑھی خدا بخش سے واپسی پر کار حادثے کا شکار ہوکر ہلاک ہوا۔
یہ کار حادثوں کا بھی بے حساس اداروں کے پاس باقائدہ ایک طرح کا شعبہ بنا ہوتاہے۔ اب جنہیں محکمہ زراعت و سیاحت برائے شمالی علاقہ جات کہتے ہیں۔اصل یہ آئی ایس آئی ، ایم آئی اور آئی بی ہوتے ہیں۔ تو پس عزیزو ٹکا خان کا راولپنڈی سے لاڑکانہ گڑ ھی خدا بخش تک بھیس بدل کر سفر کی روداد بڑی دلچسپ اور پر خطر تھی– میں سو بار ٹکا خان کو بنگال اور بلوچستان کا بچر یا قصاب کہوں جو کہ وہ تھا لیکن جیالوں نے اسے کاندھوں پر اٹھا لیا ہوا تھا۔
یہ پھر کبھی سہی کہ ایک دفعہ کس طرح مظفر گڑھ براستہ رحیم یار خان ٹرکوں کے کیبنوں پر کلینروں کا بزرگ بن کر ناکہ بندیوں کو جل دیتے ہوئے نوابزادہ نصر اللہ خان بھی اپنے حقے سمیت، کمبل پوش، بھیس بدل لاڑکانہ پہنچے تھے جہاں انہیں بھٹو کی برسی میں شرکت کےساتھ ایم آرڈی کے اجلاس کی صدارت بھی کرنی تھی۔ وہی نوابزادہ نصراللہ خان جو اس سے کچھ دن پہلے بھٹو کی سزائے موت کا حمایتی تھا۔ یہ جمہوری تحریکوں اور انکی سیاست کی شاید بڑی خوبی ہوا کرتی ہے۔
تو ایسے ہی اپنی تقریر کے زیر و بم میں شاہ محمد شاہ جو1980 والی دہائی میں بزنجو کی پی این پی میں ہوا کرتا تھا مٹھی تھرپارکر میں ایک جلسے سے خطاب کرتے حاضرین جلسہ سے مخاطب کچھ یوں ہوا “سندھ کے لوگو پی پی پی نے بار بار سندھ اور سندھیوں سے غداری کی ہے۔ مظلوم قوموں سے غداری کی ہے۔ انہوں نے بنگال اور بلوچستان کے عوام کے قصائی جنرل ٹکا خان کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنایا ہے۔ کیا اگر کل پی پی پی ٹکا خان کو تھرپارکر سے الیکشن کا ٹکٹ دے تو تم لوگ ٹکا خان کو ووٹ دو گے؟” تو جلسہ میں شریک لوگوں نے یک آواز ہوکر کہا “ہاں دیں گے۔ ضرور ووٹ دیں گے۔۔۔
♦