افغانستان میں تقریباً دو عشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے فریقین کے مابین دوحہ میں جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔افغان صدر نے کہا ہے کہ بیس سالہ جنگ بیس دن کے مذاکرات میں ختم نہیں ہو سکتی۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری بین الافغان مذاکرات تعطل کا شکار ہوجانے کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان سے ‘جرأت کا مظاہرہ اور قومی جنگ بندی‘ کا اعلان کرنے کی اپیل کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں وہ صرف زیادہ سے زیادہ وقت گذارنا چاہتےہیں۔ اگر وہ امن میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں ہتھیار پھینک کر جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہیے۔
قطر کے دو روزہ دورے کے اختتام پر صدر اشرف غنی نے دوحہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے دیرینہ تنازعہ کو‘بندوق کی بجائے مذاکرات کے ذریعے‘ حل ہونا ہے۔ اس موقع پر متعدد سفارت کار، ماہرین تعلیم اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ افغان صدر نے مزید کہا ”کوئی بھی طاقت آپ (طالبان) کو مٹا نہیں سکتی“۔
خیال رہے کہ خلیجی ریاست قطرکی میزبانی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تین ہفتے قبل امن مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ تاہم یہ مذاکرات وسیع تر بات چیت کے ضابطہ اخلاق کے مسئلے پر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں جنگ بندی اور مستقبل میں طرز حکومت جیسے موضوعات پر بھی ابھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ پیر کے روز ایک خودکش حملے میں صوبائی گورنر کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز کافی دھوم دھام سے ہوا تھا لیکن اب تک بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ بہر حال صدراشرف غنی نے ان سوالات کو مسترد کردیا جن سے اشارہ ملتا ہو کہ بات چیت مکمل طورپر رک گئی ہے۔دوحہ میں تقریب سے خطاب کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”ہم 20 برس سے جاری جنگ کو20 دن میں ختم نہیں کرسکتے“۔
قبل ازیں افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمرکا کہنا تھا کہ فریقین کے مابین اب تک بات چیت کے ضابطہ اخلاق کے سلسلے میں اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
طالبان اور افغان حکومت دونوں ہی بات چیت کا ایجنڈا طے کرنے سے قبل معاہدے کی مشترکہ نوعیت پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ طا لبان سنی فقہ کے حنفی مسلک پر عمل درآمد پر اصرار کررہے ہیں لیکن حکومتی مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ ا س سے اکثریتی شیعہ ہزارہ برادری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کیے جانے کا خدشہ ہے۔
ایک اور متنازع موضوع یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے کا مستقبل کے امن معاہدے کی تشکیل میں کیا کردار ہو گا۔افغانستان کے وزیر خارجہ اتمر کا کہنا تھا”افغان ٹیم نے مشترکہ مقصد کا تعین کرنے کے لیے متعدد تجاویز پیش کی ہیں لیکن دونوں فریق کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے ہیں“۔
تقریبا ایک ہفتے سے فریقین کے مابین کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں ہوئی ہے تاہم دونوں کا کہنا ہے کہ وہ بات چیت آگے بڑھانے کے لیے غیر رسمی گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دوحہ میں موجود افغانستان کے لیے امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے صدر غنی سے ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا”صدر کو امن کا موقع نہیں گنوانا چاہیے اور امریکا اس میں مدد کے لیے ہمیشہ تیار ہے“۔
دریں اثنا خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے دعوی کیا ہے کہ طالبان اور افغان امن مذاکرات کاروں کے درمیان مذاکرات کے لیے ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہوگیا ہے، گوکہ اہم امور پر دونوں کے درمیان اختلافات اب بھی باقی ہیں۔ ذرائع نے منگل کے روز روئٹرز کو بتایا کہ امریکی حکام کی مدد سے یہ پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔
ایک سینئر مغربی سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”ضابطہ اخلاق کی تشکیل انتہائی اہم پیش رفت ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں فریق بات چیت جاری رکھنے پر راضی ہیں حالانکہ افغانستان میں زمینی سطح پر فی الحال تشدد کم نہیں ہوا ہے“۔
افغان حکومت نے روئٹرز کی رپورٹ کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا”روئٹرز کی رپورٹ غلط ہے۔” انہوں نے تاہم اس کی مزیدوضاحت نہیں کی۔
dw.com/urdu & Web Desk