حسن مجتبیٰ
’بھرو تم قید خانوں کو
کرو قابو جوانوں کو
بجھاؤ شمع دانوں کو
قتل کرو نقطہ دانوں کو
لاؤ رشوت ستانوںکو
جو بنگلے اور محل جوڑیں
شرم آئے آسمانوں کو
پڑھو قومی ترانوں کو
کہ پاکستان زندہ آباد
اس نظم کے خالق حیدر بخش جتوئی کو پچاس کے عشرے میں قید بامشقت دی گئی تھی۔ ساری زندگی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے اس شاعرکو ان کے چاہنے والے انہیں ’بابائے سندھ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
حیدر بخش جتوئی کسانوں، متوسط طبقوں اور نوجوانوں میں حقوق کے شعور کی تحریک کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ ایک شاعر، مصنف اور سیاسی رہنما تھے۔ وہ پاکستان میں مارشل لاء اور ون یونٹ کے سخت مخالف اور جمہوریت کے کیلیے دن رات سرگرداں رہے۔
حیدر بخش جتوئی وہ واحد انسان تھے جنہیں حبیب جالب نے اپنا لیڈر اور سیاسی شعور دینے والا مانا ہے۔ حبیب جالب کی یہ نظم ’ہاری کا حق لینے والا حیدر بخش جتوئي رے بھیا حیدر بخش جتوئی‘ سندھ میں سیاسی اجتماعات میں انتہائی مقبول ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے نچلے طبقے کو اپنےحقوق کےلیے زبان دی تھی لیکن سندھ میں اسکی داغ بیل حیدر بخش جتوئی نے ڈالی تھی۔
سندھ کی سیاسی تاریخ کے کئي سنجیدہ طالب علم سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو حیدر بخش جتوئي اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کی کمائي کیش کروا کر لےگئے۔
حیدربخش جتوئي 1901 میں لاڑکانہ کے قریب کے گاؤں بکھو ڈیرو میں ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ کس کو پتا تھا کہ کہ غریب سندھی عبد اللہ فقیر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ حیدر بخش کل نہ صرف سندھ کےخون پینے والے جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام کو چیلنج کرے گا بلکہ وہ سندھ کے ہاریوں کو وڈیروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا بھی سکھائےگا۔
لیکن آج یہ بات حیرت انگیز لگتی کہ1930کی دہائي میں جب برصغیر میں انگریز سرکار کا طوطی بولتا تھا اس وقت کے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے کو چھوڑ کر حیدربخش جتوئی نے سندھ میں ہاریوں کیلیے کام کرنے کےلیے سندھ ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
حیدر بخش جتوئی اپنی ڈپٹی کلکٹری کے ہی زمانے میں تصنیف و تخلیق کی طرف راغب ہوگئے تھے اور ان کی ایک طویل نظم ’شکوہ‘ آج تقریباً ناپید ہے۔ علامہ اقبال کے مسلمانوں کے خدا سے شکوہ کے برعکس حیدر بخش جتوئي کی طویل نظم ’شکوہ‘ انسان کا خدا کے ساتھ شکوہ تھا۔
حیدر بخش جتوئي ایک قادرالکلام بلند پایہ شاعر تھے اور ’جیئے سندھ‘ جو آج ایک نعرہ اور تحریک ہے وہ اصل میں انکی ہی ایک نظم ’جيئے سندھ‘ سے ہی لیا گیا ہے جو انہوں نے سندھ کی شان میں لکھا تھا۔حیدر بخش جتوئی کی طویل نظم ’جیئے سندھ‘ میں انسان دوستی اور محنت کش مرد و خواتین و سندھ عظمت کے بیان کی گئي ہے۔
پاکستان قائم ہونے کے فوری بعد سندھ میں ہندو زمینداروں اور مہاجنوں کی چھوڑی ہوئي زمینیں سندھ کے کسانوں کو دلوانے کیلیے حیدر بخش جتوئی نے ’الاٹی تحریک‘ کے نام سے تحریک چلائي اور سندھ اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سندھ کے ہاریوں سمیت لاکھوں لوگوں نے کراچی میں سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا تھا جس میں بھارت سے پاکستان ہجرت کرکے آئے ہوئے کئي مزدور پیشہ او ترقی پسند لوگ بھی شامل تھے۔
حیدر بخش جتوئی کی تحریک ہی کے نتیجے میں سندھ اسمبلی سے کسانوں کے حق میں ‘سندھ ٹیننسی ایکٹ‘ کے نام سے قانون سازي ہوئی۔یہ اور بات ہے کہ اب وہ سندھ ٹیننسی ایکٹ غیر موثر ہو چکا ہےاور سندھ کے وڈیرے اب بھی نجی جیلیں قائم کیے ہوئے ہیں۔ کسان کے فصل میں آدھا حصہ یا ’ادھو ادھ بٹئي‘ اور بیگار کا خاتمہ حیدر بخش جتوئي کی تحریک کے نتیجے میں منوائے ہوئے قوانین ہیں جو بہرحال کاغذ پر موجود ہیں۔
انتخابات کی مہم کی دوران حیدر بخش جتوئي اور ان کے ساتھیوں کو لاڑکانہ کے قریب سندھ کےایک بڑے جاگيردار نواب غیبی خان چانڈیو نےگاؤں غیبی چانڈیو میں درختوں سے بندھوا کر تشدد کروایا تھا۔
پاکستان قائم ہونے کے کچھ سالوں بعد جب گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں برطرف کی گئی اسمبلی کو اس کے وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دیا تو اسکے خلاف حیدر بخش جتوئی نے انگریزي زبان میں اپنا مشہور پمفلٹ ’جسٹس آف دی چیف جسٹس‘ لکھ کر شائع کیا تھا۔
’جسٹس آف دی چیف جسٹس‘ پر حیدر بخس جتوئی کو گرفتاری کرکے پانچ سال کی سزائے قید سنا ئی گئی تھی۔ لیکن حیدربخش جتوئی نے جسٹس منیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ یہاں ایک جج تھا جس نے مارشل لا کی لاقانونیت کا دفاع کیا تھا۔‘
ملک میں ون یونٹ اور ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف حیدر بخش جتوئی مشرقی پاکستان سمیت پورے ملک میں گونجنے والی چند ایک مؤثر آوازوں میں سے ایک بڑی آواز تھے۔
حیدر بخش جتوئي نے ون یونٹ اور مارشل لاء کےخلاف نہ صرف نظمیں اور کئی کتابچے تحریر کیے بلکہ سندھ سے زبردست تحریک بھی چلائي جس کی پاداش میں مچھ، ساہیوال، میانوالی کی جیلوں میں بند رہے۔
جب چین کے وزیر اعظم چو این لائي پاکستان کے دورے پر آئے تو کوٹری پل کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے خصوصی طور حیدر بخش جتوئي سے ملاقات کی تھی۔
قید و بند کی صعوبتوں نے حیدر بخش کی صحت پر انتہائی منفی اثرات ڈالے لیکن انہوں نے ون یونٹ کے خلاف مہم بستر سے بھی جاری رکھی اور وہ جنرل یحییٰ خان کے ون یونٹ توڑنے کے اعلان کے بعد اکیس مئی انیس سو ستر کو فوت ہوئے۔
حیدر بخش جتوئی کی موت کے بعد سندھ ہاری کمیٹی کے کئي حصے بخرے ہوئے۔سندھ ہاری کمیٹی کا ایک حصہ ان کے پوتے اظہر جتوئي کے رہنمائي میں قائم ہے اور حسب حال سندھ کے حقوق کی تحاریک سے نتھی ہے۔
حیدرآباد جسے سندھ کا دل کہا جاتا ہے اس میں ایک چوک کا نام ’حیدر چوک‘ کا نام دیا گیا۔لیکن جس طرح سندھ کی باقی تاریخ اور اس کے مقامات سے دست درازي کی گئي اسی طرح حیدر چوک کو بھی مبینہ طور پر ’مہاجر چوک‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہاں سراج الدولہ، الطاف حسین حالی، سر سید احمد خان کی تصاویر بنائی گئیں جنہیں نو مئي1988 کی شب کچھ نامعلوم افراد نے کالا کر دیا جس سے شہر میں لسانی فسادات بھڑک اٹھے۔ حیدرآباد تو سندھ کا وہ شہر ہے جہاں باچا خان چوک بھی ہے۔
( بی بی سی اردو ڈاٹ کام ۲۱ مئی ۲۰۰۹)