واشنگٹن سے محمد شعیب عادل
امریکہ میں صدارتی الیکشن کے موقع پر صدارتی امیدواروں کی آپس میں مباحثہ کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ پہلی دفعہ، 1960 میں ٹی وی پرصدارتی امیدواروں کینیڈی اور نکسن کے درمیان مباحثہ براہ راست دکھایا گیا۔ اس کے بعد یہ صدارتی الیکشن کا بنیادی فیچر ہے۔ صدارتی امیدوار اس موقع پر اپنا منشور یا مختلف مسائل کے لیے حل کے لیے اپناپروگرام پیش کرتے ہیں۔ صحافی و دانشور اس منشور پر مختلف حوالوں سے تیکھے اور مشکل سوال بھی کرتے ہیں لیکن امیدوار چاہے وہ ری پبلکن ہو یا ڈیموکریٹک تفصیل کے ساتھ اپنی پالیسی کے متعلق وضاحت کرتا ہے کہ وہ اس پر کیسے عمل درامد کرے گا۔اور اس پر عمل درآمد کے لیے وسائل کیسے اکٹھا کرے گا۔
صدارتی مباحثہ کا اہتمام ایک آزاد صدارتی کمیشن کرتا ہے،اس سلسلے میں تین مباحثے ہوتے ہیں۔ آزاد صدارتی کمیشن ہی سوالوں اور ماڈریٹرز کا انتخاب کرتا ہے۔ مباحثے سے پہلے کسی کو علم نہیں ہوتا کہ ماڈریٹر کون ہوگا اور کیا سوالات پوچھے جائیں گے۔ بہرحال سوالات کا تعلق ان کے منشور اور پالیسیوں سے متعلق ہی ہوتا ہے کہ وہ برسر اقتدار آکر ملکی اور بین الاقوامی مسائل سے کیسے نمٹیں گے وغیرہ وغیرہ۔اس مباحثے کا دورانیہ نوے منٹ ہوتا ہے۔
امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ صدارتی مباحثہ پر پالیسی ڈسکشن کی بجائے ذاتی تنقید اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا گیا اور اس کے موجد صدر ٹرمپ ہیں۔ پہلاصدارتی مباحثہ29 ستمبر کوہوا جو کہ صدر ٹرمپ کی الزام تراشیوں اور جوبائیڈن کی تقریر میں بار بار مداخلت کی وجہ سے ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کا موقع بن گیا۔ صدر بائیڈن پوری تیاری سے موجود تھے اور کسی بھی اہم مسئلے پر اپنی پالیسی بیان دینا چاہتے تھے مگر ٹرمپ کی بار بار کی مداخلت اور اسے جھوٹا قراردینے کی وجہ سے بحث کسی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی۔ اسی طرح پھر بائیڈن نے بھی ٹرمپ کو ایک کلاؤن قرار دیا۔ ماڈریٹر نے ٹرمپ سے جو سوالات کیے اس کے جواب بھی انھوں نے نہ دیئے۔
اس مباحثے میں صدر ٹرمپ نے سفید فام نسل پرست گروہوں پر تنقید کرنے سے انکارکردیا اور کہا کہ وہ میری پشت پر کھڑے ہیں۔ امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی صدر کی جانب سے نسل پرست گروہوں کی حمایت کی گئی۔ جس کی ملک بھر میں تنقید ہوئی اور ریپبلکنز رہنما صدر کے اس بیان کی توجیہات پیش کرتے رہے کہ صدر کا مطلب یہ نہیں جو پریس میں لیا جارہا ہے مگر صدر ٹرمپ بہرحال اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی معیشت ترقی کی جانب گامزن تھی، ملک میں تاریخ کی کم ترین بے روزگاری کی شرح تقریبا 2 فیصد کے قریب تھی۔ لیکن کووڈ19 کے بعد صورتحال یک دم تبدیل ہوگئی۔ اور صدر ٹرمپ پر سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ وہ کووڈ 19 سے پیداہونی والی صورتحال سے نبٹنے میں ناکام ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اب تک 216،000سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ابتدا میں اس کو کوئی اہمیت نہ دی۔ حتیٰ کہ وائیٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر نے 27 جنوری کو صدر ٹرمپ کو کہا کہ کووڈ 19 ایک تباہ کن وائرس ہے جو کہ اپ کی صدارت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہےلیکن صدر نےاس کی بات سنی ان سنی کردی۔ جاری ہے
بہرحال اس مباحثے کافائدہ جوبائیڈن کے حق میں گیا اور صدر ٹرمپ کے مشیروں نے حسب سابق انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کا یہی کہنا ہے کہ ڈیپ سٹیٹ میرے خلاف سازش کررہی ہے۔۔۔
امریکی الیکشن2020 کی ڈائری، محمد شعیب عادل