نعیم مرزا
پروفیسر منظور احمد کی عدم کی جانب رخصتی سے نوستالجیا کا دورہ پڑا ہے۔ اس لئے کچھ ذاتی باتیں ابل پڑی ہیں۔ بڑی یادیں وابستہ ہیں پروفیسر منظور احمد صاحب اور انکے بچوں کے ساتھ ہمارے خاندان کی۔ ہم بہن بھائی، ہماری امی، آپاں زبیدہ، زبیر یوسف اور فریدہ دیو سماج روڈ کی گلی نمبر1، مکان نمبر 15، سنت نگر، لاہور، میں پروفیسر امین مغل کے ساتھ اور انکے زیر سایہ رہ رہے تھے۔ میری شادی کےبعد عالیہ مرزا بھی یہاں رہی۔ آپا زبیدہ پروفیسر منظور کی ایم۔اے نفسیات کی کلاس میں شاگرد تھی۔ ہماری امی، آپا زبیدہ اور عالیہ مرزا کی منظور صاحب کی بیگم سلمی آپا سے دوستی تھی اور ان دونوں خاندانوں کے درمیان آپس میں اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔
مکان نمبر 15 کے اوپر کی منزل پر بٹ فیملی رہتی تھی، جسکے ارکان ہمارے سگے رشتے داروں سے زیادہ سگے، پیارے اور یک جان، دو قالب بن چکے تھے، اور اب تک ہیں۔ انکا ایک فرزند شامی افضل آجکل فیس بک پر فعال ہے۔ یہ ہم سے تعداد میں بڑی فیملی تھی اور انکا تعلق کشمیر سے تھا۔ ہمارے توسط سے یہ فیملی بھی منظور صاحب کی فیملی سے متعارف ہو گئی۔ اس فیملی کے ایک اور فرزند ماجد بٹ اور میں پروفیسر منظور کے بڑے صاحبزادے اسد منظور کے مشترکہ دوست تھے۔ اسد نوجوانی میں انتقال کر گئے۔ ماجد، اسد اور میرا بہت شاندار وقت گزرا۔
بٹ خاندان کے اجو بھائی (افضل بھائی، شامی کے ابا) جو لاہور ہائی کورٹ میں کام کرتے تھے، ایک بار پولیس پارٹی کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے، جو امین صاحب کو گرفتار کرنے آئی تھی۔ امین صاحب نے بڑی مشکل سے اجو بھائی کو ٹھنڈا کیا اور پولیس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ یہ 1967 سے آگے اور 1975 تک کی یادیں ہیں، میری ذات کے حوالے سے، اسکا پس منظر شاید اس سے زیادہ پرانا ہو اور آگے تو یقینا چلتا ہے۔ بہرحال ذاتی، پیشہ وارانہ اور نظریاتی تعلقات کے اس وسیع نیٹ ورک کی بے شمار شاخیں تھیں، جسکی ایک شاخ پر ہمارا بسیرا تھا۔ اسکی جڑیں بھی ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ اسکا تنا پروفیسرایرک سپرین، منظور احمد، امین مغل، عزیز الدین احمد اور منہاج صاحب اور کئی مزید انقلابیوں اور دانشوروں کے وجود سے بنا تھا۔
دیو سماج روڈ کا اختتام ایک چھوٹا سا موڑ کاٹ کر نہرو پارک پر ہوتا تھا (کافی عرصہ پہلے سنت نگر، نہرو پارک اور کرشن نگر کے نام تبدیل کر دئیے گئے۔ سنت نگر میں ایک زمانے میں کرشن چندر اور صوفی غلام مصطفی تبسم رہتے تھے اور کرشن نگر میں ناصر کاظمی اور کشور ناہید کے گھر تھے)۔ نہرو پارک کے دائیں طرف ایک گلی کے مکان کی دوسری منزل کے دو کمرے کے مکان میں شاعر انقلاب حبیب جالب اپنی فیملی کے ساتھ انتہائی غربت کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے، لیکن یہ انکی شاعرانہ اور سیاسی کیرئر کے عروج کا زمانہ تھا۔ جالب صاحب کا معمول تھا کہ وہ صبح گھر سے نکلنے کے بعد اور رات واپسی پر، رات کا کوئی بھی پہر ہو، ہمارے گھر امین صاحب سے ملنے کے لئے ضرور رکتے تھے، خواہ وہ گھر ہوں یا نہ ہوں۔
ہمارے کرائے کے گھر کی عقبی دیوار ملک اسلم حیات ایڈوکیٹ کے مکان سے جڑی ہوئی تھی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد اپنا پہلا اندرون خانہ جلسہ ملک اسلم حیات کے گھر پر کیا تھا۔ اس جلسے میں بھٹو صاحب کی تقریر امین صاحب اور انکے سیاسی دوستوں نے ہمارے گھر کے صحن میں بیٹھ کر سنی تھی۔ یہ لوگ اس وقت نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک تھے۔ میں اسوقت اسکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور جب میں بھٹو صاحب کے جلسے سے ایک نوٹ بک پر انکا آٹو گراف لیکر گھر آیا تو ان انقلابیوں نے بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میرا مذاق اڑایا، کہ” منڈیاں نوں پاگل بنا رہیا ہے“۔
ہماری اس گلی نمبر1 میں ایک اور شخصیت، میاں اظہر کی کوٹھی بھی تھی اور انکا سریے اور لوہے کا کاروبار خوب چمک رہا تھا۔ میاں اظہر جو بعد میں پنجاب کے گورنر بھی بنے اور میاں نواز شریف کی دوستی میں ‘سریہ‘ قدر مشترک تھا۔ میاں اظہر ویسے منکسر المزاج شخص تھے۔ انکے بیٹے حماد اظہر تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں وزیر ہیں۔
پروفیسر منظور احمد اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر سے تھوڑی دور، گلی نمبر 1 سے گھوڑا ہسپتال کی طرف جائیں تو اسلامیہ کالج سول لائینز سے پہلے ایک آبادی میں رہتے تھے، بلکہ انہوں نے اسی علاقے میں دو بار رہائش گاہ تبدیل کی۔ پہلے وہ ریٹیگن روڈ کے جس مکان میں رہتے تھے ، وہیں 1968 میں شاہ حسین کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ منظور صاحب نے اس مکان کا ایک حصہ اس وقت کے مشہور صحافی حمید شیخ کو کرائے پر لے کر دیا تھا۔ حمید شیخ صاحب کے بیٹے مجید شیخ سے ہماری بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ملاقات ہوئی۔ اس نے بھی صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب لڑکیاں لاہور میں سائیکل چلاتی تھیں، عورتیں گروپ بنا کر سینماوں میں فلمیں دیکھنے جاتی تھیں، لاہور کی سڑکوں پر ڈبل ڈیکرز چلتی تھیں، مکالمہ زوروں پر تھا اور مال روڈ پر دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کا راج تھا۔ موچی دروازہ اور گول باغ میں جلسے ہوتے تھے۔ حلقہ ارباب ذوق اور پنجابی ادبی سنگت کے ہفتہ وار اجلاسوں میں بہت زیادہ حاضری ہوتی تھی اور کمال کی گفتگو ہوتی تھی۔ پاک ٹی ہاوس ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا مرکز تھا۔ یہاں پر حاضری ادیبوں شاعروں کی شہرت کہ سند سمجھی جاتی تھی۔ احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، منیر نیازی، ڈاکٹر انور سجاد، ناصر کاظمی اور ظہیر کاشمیری سب یہاں آتے تھے۔
زاہد ڈار کی مخصوص نشت پر بیٹھنے کی کسی کو جرات نہ تھی۔ اسکے نزدیک ہی کافی ہاوس اور چائینیز لنچ ہوم تھے۔ یہاں سیاسی رہنما اور کارکن زیادہ بیٹھتے تھے، جن میں شورش کاشمیری اور مولانا کوثر نیازی بھی شامل تھے۔ ریگل چوک پر ‘موڑا ہوٹل‘ تھا، جہاں “کم معاشی حیثیت کے مالک ادیب اور دانشور” بیٹھتے تھے۔یہ ہمارے کالج کا زمانہ تھا۔ اسے اگر لاہور کے تہذیبی عروج کا زمانہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ پروفیسر منظور احمد لاہور کی اسی تہذیبی زندگی کا ایک نایاب جوہر تھے۔
اسی زمانے میں پروفیسر ایرک سپرین، پروفیسر منظور احمد اور پروفیسر امین مغل اسلامیہ کالج سول لائینز میں پڑھاتے تھے۔ پروفیسر منظور شعبہ نفسیات کے سربراہ تھے اور سپرین صاحب اور امین صاحب انگریزی پڑھاتے تھے۔ انکی علمیت کی شہرت کا بہت چرچا ہونے لگا اور طلباء دوسرے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے انکے لیکچر سننے کے لئے آنے لگے۔ انکی کلاسز میں کھڑا ہونے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ یہ اساتذہ چونکہ نظریاتی طور پر ترقی پسند اور انقلابی تھے، اسلئے انجمن حمایت اسلام نے، جس کے زیر انتظام یہ کالج تھا، ان کو ‘تخریبی‘ کاروائیوں کے الزامات لگا کر ملازمت سے برطرف کر دیا۔
اسکے بعد ان اساتذہ کرام نے شاہ حسین کالج کی بنیاد رکھی، جسکے پرنسپل پروفیسر منظور احمد تھے۔ یہ کالج بعد میں لارنس روڈ منتقل ہو گیا تو یہ وہاں علم کے پیاسوں کا مرکز بن گیا۔ ہمیں یاد ہے کہ یہ پروفیسر اور دوسرے کئی لوگ شاہ حسین مادھو لال کے سالانہ عرس پر انکے مزار پر حاضری دیتے تھے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے تھے۔ یہ روایت لاہور کے ترقی پسند دوستوں نے آج تک برقرار رکھی ہے۔ منظور صاحب ہمارے عہد کے بڑے عالم تھے۔ وہ انتہائی وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ وہ جس طرح جدلیاتی پرکھ سے چیزوں کو دیکھتے تھے، وہ صلاحیت اور نگاہ کم سکالرز کے حصے میں آتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار امین صاحب کے کمرے میں گفتگو چل رہی تھی اور امین صاحب کہنے لگے کہ “دیکھیے دو باتیں ہیں“، ابھی انہوں نے یہ کہا ہی تھا کہ منظور صاحب نے انہیں فورا ٹوکا اور کہا “امین بات ایک ہی ہوتی ہے، جس کو درست سمجھتے ہو، وہ کرو“۔ امین صاحب ان سے اہم معاملات میں مشورہ ضرور لیتے تھے۔ منظور صاحب ‘فری تھنکر‘ تھے اور کسی بھی قسم کے تعصب کو پاس نہیں پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ نجم حسین سید کے اسی زمانے میں لکھے گئے ڈرامے ‘تخت لہور‘ کے ایک کردار کے جملے “میری من مرضی، میری حد” کے مصداق انہوں نے اپنی زندگی کو ایک ‘آزاد روح‘ کی مانند گزارا، جسکی من مرضی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ آزادی کا شہسوار ہے اور آزادی سے لطف اندوز ہونے کا ہنر جانتا ہے۔
منظور صاحب بے پناہ مضبوط اعصاب اور قوت ارادی کے مالک تھے۔ ایک بار ان کے دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ ہسپتال میں داخل تھے، لیکن دوسری صبح اپنے بستر پر نہ پائے گئے۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر اپنے آبائی گاوں تشریف لے گئے ہیں اور وہاں کی کھلی فضا میں چہل قدمی کرتے پائے گئے ہیں۔ پروفیسر منظور احمد کی حس مزاح اور بذلہ سنجی کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا۔ وہ اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ بے لاگ تبصرہ کرتے تھے۔
دو سال پہلے 2018 میں عاصمہ جہانگیر کے جنازے پر ان سے آخری بار ملاقات ہوئی تو جنازے کے بعد ہم ایک گروپ بنا کر ان کے پاس بیٹھ گئے۔ سرمد منظور اور حارث خلیق، نعیمہ ملک اور ممتاز مغل بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے برسوں بعد عالیہ کو پہچان لیا اور کہا کہ “ملکہ عالیہ تم ہی ہو سکتی ہو“۔ انہوں نے ہم پر علم کے موتی نچھاور کئے اور میرے اور سرمد کے درمیان ایک مشترک چیز پر بڑی نادر جگت بھی لگائی۔
وہ پیار کرنے والے بے خوف انسان تھے اور جس سے پیار کیا، اسکو آخر وقت تک نبھایا۔ منظور صاحب کو اپنے بیٹوں شاہد منظور، راشد منظور، سرمد منظور، ماروی سرمد اور اپنے پوتے پوتیوں سے عشق کی حد تک لگاو تھا۔
پروفیسر منظور احمد لاہور کی ختم ہوتی ہوئی تہذیبی زندگی کی آخری آس تھے۔ کل وہ بھی ٹوٹ گئی!۔