بیرسٹر حمید باشانی
لاہور میں غداری کا ایک مقدمہ درج ہوا تو طوفان کھڑا ہوگیا۔ حالاں کہ اس مقدمے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے دور دراز دیہاتوں اور شہروں کے تھانوں میں کئی ایسے مقدمے درج ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اب کہ جن کے خلاف یہ مقدمہ درج ہوا وہ ہائی پروفائل لوگ تھے۔
دنیا کی سیاسی تاریخ میں اگربدنام زمانہ مقدمات کی فہرست بنائی جائےتواس میں غداری کے مقدمات سرفہرست آتے ہیں۔ اس کی دووجوہات ہیں۔ ایک توغداری کے الزام یا جرم کی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔ دوسرا اس میں عموما بہت سخت اورعبرتناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ تاریخ میں غداری کی ایسی عبرتناک سزائیں دی جاتی رہیں، جن کے بارے میں سوچ کرآج کے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان خوفناک سزاوں میں عمو ما ایک مقبول سزا یہ ہوتی تھی کہ مجرم کو گھوڑے کے ساتھ باندھ کر پتھریلی اورسخت زمین پرگھسیٹا جاتا تھا۔ اورجب وہ اس درناک سزا کی وجہ سے قریب المرگ ہو جاتا تواسے پھانسی لگا دیا جاتا تھا۔
مگرپھانسی چڑھا دینے پرغدار کی سزا ختم نہیں ہوجاتی تھی، بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی سزا جاری رہتی تھی۔ بسا اوقات مرنے کے بعد مجرم کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکہ چیلوں کو کھلائے جاتے۔ سربریدہ لاش سرعام پھینک دی جاتی، یا کئی دنوں تک کسی چوراہے پرلٹکا دی جاتی۔
جب ہماری اس دنیا میں جدید طرزریاستیں ابھی نہیں بنی تھیں، تب بھی غداری کا جرم اوراس کی سزا کا رواج موجود تھا۔ ریاستوں اورملکوں کی تشکیل سے پہلے افراد کے مختلف قبیلے ہوتے تھے۔ ان قبیلوں سے وابستہ افراد کی وفاداری لازم تھی۔ اگر قبیلے کا کوئی فرد اس وفاداری کو نبھانے میں ناکام رہتا، یاکسی بھی معاملے میں اپنے قبیلے کو دھوکا دیتا تو اسےغدار قراردیا جاتا تھا۔ اس طرح کے سنگین جرم کی صورت میں قبیلے اپنے روایتی جرگے سجاتے تھے۔ ملزم کو ان کھلے جرگوں میں پیش کیاجاتا، بڑے اہتمام اور جشن و طرب کے ساتھ غداری کے ملزم کو سزا دی جاتی۔
انسان تھوڑا آگے بڑھا تو قبیلوں کی جگہ قوموں، قومیتوں یا مذاہب کے حوالے سےانسانوں کے گروہ ترتیب پانے لگے ؛ چنانچہ غداری کے الزامات اورجرم و سزا کا یہ سلسلہ ایک مختلف شکل میں جاری رہا۔ مذہبی پیشواؤں کے پاس طاقت اوراختیارآیا تواپنے پیشواؤں کی بات سے انحراف کو دھوکہ دینے اورغداری کے مترادف قراردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سماج کے دیگرطاقت ورطبقات جن میں بادشاہ، جاگیردار، سردار اور وڈیرے شامل تھے کے ساتھ بھی وفاداری لازم ٹھہری۔ اس وفاداری کے یک طرفہ قاعدے اورکلیے بنائے گئے ، جن کی خلاف ورزی ان لوگوں کے ساتھ دھوکہ اورغداری قرارپائی۔ غداری کے اس جرم کی کڑی سزائیں مقررہوئیں۔
جوں جوں سماج پیچیدہ ہوتا گیا، غداری کاجرم بھی پیچیدہ ہوتا گیا۔ گیارہویں اوربارہویں صدی میں دھوکہ دہی کےعلاوہ کئی دوسری افعال کوغداری کے زمرے میں شمار کیا گیا۔ جو نئے جرائم اس فہرست میں شامل کیے گئے ان میں دشمن سے لڑائی کے دوران میدان جنگ سے بھاگنا، بادشاہ یا آقا کی موت کے لیے کوئی سازش کرنا، یا اس میں شریک ہونا، بادشاہ یا آقا کی جعلی مہربنانا، یہاں تک کہ بادشاہ یا آقا کی زوجہ کے ساتھ ہم بستری کرنے جیسے کاموں کو بھی غداری قراردیا گیا۔
تیرہویں صدی کے بعد غداری کے جرم کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیا۔ اس جرم کوبڑی غداری اورچھوٹی غداری میں تقسیم کر دیاگیا۔ بڑی غداری یا ہائی ٹریزن کا مطلب تھا اپنے بادشاہ کےساتھ غداری۔ اوراپنے آقا ، جاگیردار یا مالک کے خلاف دھوکہ دہی کےعمل کو چھوٹی غداری یا پیٹی ٹریزن کا نام دیاگیا۔ جب غداری کے چھوٹی اوربڑی قسموں کو لیکرایک طرح کا کنفیوزن پیدا ہونا شروع ہوا تو مختلف ممالک نے اس کی وضاحت کے لیے قانون بنانےشروع کیے۔ چودہویں صدی کے دوسرے نصف میں انگلستان اوردوسری یورپی پارلیمان میں ان جرائم کی باقاعدہ تعریف متعین ہوئی اوران کی سزاوں کے بارے میں قانون سازی کی گئی۔
پاکستان کے قیام سے قبل برصغیر میں انگریزوں کے زیرنگین غداری کے الزامات لگانے کا رواج عام تھا۔ انگریزوں کے نزدیک سرکارانگلستان اوراس کی حکمرانی کےخلاف کسی قسم کی سرگرمی، خصوصا تحریرو تقریر کوغداری قراردیا جاتا رہا۔ اس روایت کے تحت برصغیر کی کئی نامی گرامی شخصیات پرغداری کے مقدمات قائم ہوئے، اوران کواس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔ جیل کےعلاوہ غداری کےالزامات میں سیاسی کارکنوں کو کالا پانی میں جلاوطنی سزائیں بھی دی جاتی رہی۔
پاکستان کے قیام کے بعد بد قسمتی سےانگریزوں کی قائم کردہ بہت سارے قوانین اور روایات قائم رہیں۔ سیاسی رہنماوں پرغداری کےالزامات لگاتے جاتے رہے۔ پاکستان کا پہلا غدار حسین شہید سہروردی ٹھہرے۔ سہروردی قیام پاکستان کے قیام سے پہلے مسلم لیگ ایک بڑے سیاست دان تھے۔ تقسیم کے وقت بنگال کے وزیراعلی رہے تھے۔ مشرقی بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کا سہرا ان ہی کے سرسجتا ہے۔ تقسیم کے بعد بنگال اورکلکتہ میں ہندو مسلم فسادات رکوانے کے لیے حسین شہرسہروردی تین ماہ تک موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ رہے۔ پاکستان واپسی پران پرغداری کا الزام لگایا گیا، اوران کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے خارج کردیا گیا۔
غداری کے الزامات بھگتنے والوں کی طویل فہرست میں غلام مرتضی شاہ سید اورخان عبدل غفارجیسے لوگ بھی شامل ہیں ، جن کو غداری کے الزامات کے تحت طویل جیلیں کاٹنی پڑیں۔ خان عبدل غفارخان کا تعلق توخیرخدائی خدمت گارتحریک سے تھا، اورتقسیم سے قبل وہ کانگرس کے قریب تھے۔ لیکن جی ایم سید1943میں آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر تھے۔ اسمبلی کے منتخب ممبر کی حیثیت سے انہوں نے سندھ اسمبلی میں سندھ کو مجوزہ پاکستان میں شامل کرنے کی قراداد پاس کروائی۔ سندھ کو پاکستان کا حصہ بنانے کا سہرا جی ایم سید کے سرباندھا جاتا ہے۔
آگے چل کر 1946 میں ان کو مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ غداری کے الزمات میں انہوں نے سندھ کی جیلوں میں تیس سال کےقریب عرصہ گزارا۔ ان بڑی معروف شخصیات کے علاوہ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کو بھی غداری اورملک دشمنی کےالزامات لگتے رہے۔ ذولفقار علی بھٹو کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی کوملک دشمن قراردے کرغیرقانونی قراردیا گیا۔ اس پارٹی نے اس وقت بلوچستان اورخیبر پختونخواہ کی اکثریتی نشستیں جیتی ہوئی تھیں۔ اس پارٹی کے رہنماوں پرغداری کے الزامات لگائے گئے۔ ان ناموررہنماؤں میں نواب خیربخش مری، خان عبدل ولی خان، سردار عطااللہ مینگل، اورغوث بخش بزنجو پرغداری کے الزامات لگائے گئے۔
اس سلسلے کی ایک المناک کڑی نواب اکبربگتی تھے۔ اکبربگتی نے1947 میں بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ایک وزیرسے لیکرصوبے کے وزیراعلی اورگورنرجیسے اعلی ترین عہدوں پرفائز رہے۔ لیکن2006 میں ان پرغداری کاالزام لگا، جو ان کی موت پرمنتج ہوا۔ غداری کے الزامات کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں بے شمار قابل احترام نام ہیں، جن پریہ الزمات لگائے گئے۔ ان میں فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو، فیض احمد فیض سمیت ممتازافراد کی ایک طویل فہرست ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے شہری حکومت کی وفاداری سے نہیں، بلکہ ریاست کی وفاداری کے پابند ہوتی ہیں۔ حکومت کی مخالفت کوغداری قراردینا ایک غلط روایت ہے۔ ایسی روایات کا جمہوری حکومتوں میں جاری رہنا بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔
♦