امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا چین میں ایک بینک اکاؤنٹ ہے اور وہ چین میں برسوں تک کاروباری منصوبوں کی تلاش میں رہے ہیں۔
اس اکاؤنٹ کو ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹلز مینیجمنٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سنہ 2013 سے سنہ 2015 کے دوران چین میں مقامی ٹیکسوں کی ادائیگیاں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ٹرمپ کے ایک ترجمان کے مطابق اس اکاؤنٹ کو ’ایشیا میں ہوٹلوں کی ڈیلز کی تلاش کے لیے‘ کھلوایا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ چین میں کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی اسی پالیسی کی بدولت چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ کی سی کیفیت ہے۔
نیویارک ٹائمز کو اس اکاؤنٹ کا صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریکارڈ کی دستاویزات سے پتا چلا، اس دستاویزات میں ان کی کمپنیوں اور ذاتی مالی معاملات کی تفصیلات ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کی اس سے قبل شائع ہونے والی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے سنہ 2016 اور سنہ 2017 میں فیڈرل ٹیکسز کی مد میں مجموعی طور پر صرف 750 ڈالر ٹیکس ادا کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ جبکہ چین میں بینک اکاؤنٹ کے ذریعے مقامی ٹیکسوں کی مد میں ایک لاکھ 88 ہزار سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔
آئندہ ماہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل بھی صدر ٹرمپ اپنے حریف جو بائیڈن اور چین کے بارے میں اُن کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے اور اُن کے چین کے ساتھ معاملات کے حوالے سے ایسے دعوے کیے جا رہے ہیں جن کا ابھی تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ جو بائیڈن کے انکم ٹیکس گوشواروں اور دیگر مالی معاملات کی تفصیلات سے نہیں پتا چلتا ہے کہ ان کے چین کے ساتھ کسی قسم کی کاروباری وابستگی نہیں ہے۔
ٹرمپ آرگنائزیشن سے وابستہ وکیل ایلن گارٹن نے نیویارک ٹائمز کی اس خبر کو ’قیاس آرائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ’غلط مفروضے‘ بنا کر پیش کیے گئے ہیں۔
انھوں نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹلز مینیجمنٹ نے ’مقامی ٹیکسز ادا کرنے کی غرض سے چین کے اس بینک میں اکاؤنٹ کھولا تھا جس کی شاخیں (آفس) امریکہ میں بھی واقع ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس اکاؤنٹ کے ذریعے ’کسی قسم کی کاروباری ڈیل، پیسوں کی لین دین یا دیگر کاروباری سرگرمیاں نہیں کی گئیں اور سنہ 2015 سے ان کا آفس غیر فعال ہے‘۔
انھوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’اگرچہ بینک اکاؤنٹ اپنی جگہ پر موجود ہے تاہم اسے کبھی بھی کسی اور مقصد (ماسوائے مقامی ٹیکس کی ادائیگی) کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔‘
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے امریکہ اور ملک سے باہر بہت سے کاروبار ہیں۔ ان کاروباروں میں سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ میں گالف کورس اور فائیو سٹار ہوٹلز کی ایک چین بھی شامل ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کے چین، برطانیہ اور آئرلینڈ میں متعدد بینک اکاؤنٹس ہیں۔
رواں برس اگست میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ امریکی کمپنیوں کو اپنی فیکٹریاں چین سے باہر دیگر ممالک میں منتقل کرنے کے لیے ٹیکس کریڈٹس کی پیش کش کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ ایسی امریکی کمپنیوں کے ساتھ حکومتی معاہدے ختم کر دیں گے جو چین کے ساتھ کام کرنا جاری رکھیں گی۔
صدر ٹرمپ نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’چین پر اپنا انحصار ختم کرنے کے لیے‘ وہ 10 ماہ میں ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام