افغانستان کے جنوب مغربی صوبے نیمروز میں ملکی سیکورٹی دستوں کی ایک چوکی پر طالبان عسکریت پسندوں نے ایک بڑا حملہ کیا، جس میں کم از کم بیس سرکاری فوجی مارے گئے۔ طالبان چھ افسروں اور فوجیوں کو اغوا کر کے ساتھ بھی لے گئے۔
کابل سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نیمروز میں مقامی حکام نے بتایا کہ اس حملے کے دوران طالبان نے ایک چوکی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ بھی کر لیا۔ نیمروز کے ضلع خواش رود کے گورنر نے جمعہ تیئیس اکتوبر کے روز نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ طالبان عسکریت پسندوں نے اس چوکی پر حملہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کیا۔
ضلعی گورنر کے مطابق، ”خواش رود میں جس چوکی پر حملہ کیا گیا، وہ دیہہ مزنگ چیک پوائنٹ کہلاتی ہے۔ اس حملے میں ملکی فوج کے کم از کم 20 افسر اور سپاہی مارے گئے جبکہ چھ دیگر کو حملہ آور اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے‘‘۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ شبینہ حملہ ضلعی صدر مقام سے تقریباً 70 کلومیٹر دور کیا گیا اور طالبان حملہ آور جاتے ہوئے اس چوکی پر موجود تمام ہتھیار، گولہ بارود اور گاڑیاں بھی ساتھ لے گئے۔ ضلعی گورنر کے بقول اس حملے کے بعد آج جمعے کی صبح افغان ایئر فورس نے وہاں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری بھی کی۔
طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے تصدیق کر دی ہے کہ دیہہ مزنگ چیک پوسٹ پر یہ خونریز کارروائی طالبان جنگجوؤں نے کی۔
افغان صوبے نیمروز میں گزشتہ شب کیا جانے والا بڑا حملہ طالبان کی ان مسلح کارروائیوں کا حصہ ہے، جو طالبان کے نمائندوں اور کابل حکومت کے مندوبین کے مابین جاری امن مذاکرات کے باوجود بند نہیں ہوئیں۔ بین الافغان مکالمت کہلانے والی یہ امن بات چیت گزشتہ ماہ خلیجی عرب ریاست قطر میں شروع ہوئی تھی۔
طالبان مزاحمت کار اور ان کی قیادت ابھی تک ہندوکش کی اس ریاست میں کوئی بھی جنگ بندی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر میں جاری امن بات چیت کی کامیابی کے لیے فریقین کی مسلسل اور انتھک کوششیں درکار ہوں گی۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد کو بڑھاوا دے کر مراعات حاصل کرنے کی کوشش خطرناک ہے۔
ماہرین کا مسلسل یہی کہنا ہے کہ طالبان صرف وقت گذاری کے لیے مذاکرات کررہے ہیں وہ امن میں بالکل سنجیدہ نہیں۔ وہ اس انتظار میں ہیں جیسے ہی امریکی دستے افغانستان سے نکلیں تو وہ ایک دفعہ پھر افغانستان پر قبضے کی لڑائی لڑیں۔اگر طالبان واقعی امن میں سنجیدہ ہیں تو انہیں ہتھیار پھینک کر جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہیے۔
dw.com/urdu & Web desk
♦