گزشتہ دِنوں ہمارے بریگیڈئیر ابوذر صاحب نے جو کہ اینٹی نارکوٹکس فورس(سندھ) کے فورس کمانڈر ہیں اور محترم لیفٹیننٹ جنرل خاور حنیف صاحب جنہیں ہلال امتیاز ملٹری بھی حاصل ہے اور جو اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں،اُن کی نگرانی اور انتظامات کے دوران قریباً 16ٹن منشیات کراچی کے ایک دور افتادہ مقام پر نذرآتش کی گئیں جسے ہمارے پیارے گورنر سندھ محترم جناب عشرت العباد خان صاحب نے بریگیڈئیر صاحب اور مجھ خاکسار کے ساتھ مل کر نذرِ آتش کیا۔
حالانکہ اِس موقع پر محترم نثار کھوڑو صاحب بھی موجود تھے جن کے چہرے پر ’’غم‘‘ نمایاں تھا لیکن بہرحال وردی کے سامنے کسی بھی قسم کی ’’گردی‘‘ کا چلنا اب کم از کم محال ہے…اور شاید اِسی بنا پر ’’بھاری دِل‘‘ کے ساتھ اُنہوں نے بھی ’’بوتلیں‘‘ توڑنے میں ایک بھرپور کردار اداکیا جو یقیناً لائق تحسین اوراِس لحاظ سے باعثِ تہنیت امر ہے کہ کھوڑو صاحب جیسی ہستیاں بھی اگر ’’بیدار‘‘ ہوجائیں تو ’’ذخائر‘‘ کو آگ لگانے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے۔۔
جانتا ہوں کہ ’’تعبیر‘‘شاید ممکن نہ ہومگر خواب دیکھنے میں کوئی حرج بھی تو نہیں…خیر! جانے دیجیے اِس موضوع پر پھر کبھی قلم شناسی کی کوشش کروں گا آج تو منشیات کے اِس ڈھیر میں موجود ’’کوکین‘‘ کے بارے میں جو حیرت انگیز انکشافات ہوئے وہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں جو میرے لیے تو بلاشبہ’’نئے‘‘ ہیں مگر کچھ ’’پرانوں‘‘ کے لیے دہرا دینا بھی ضروری ہے۔
البتہ یاد رہے کہ یہ حقائق ’’کوکین‘‘ کی تیاری اور اُس کی غیر قانونی خرید و فروخت کے حوالے سے معلومات تک رسائی کے لیے ’’عام عوام‘‘ کے لیے بیان کیے جارہے ہیں۔اِس کا ہدف کوئی بھی ’’خاص‘‘ فرد ، افراد یا اُن کی ’’نجی زندگی‘‘اور’’ذاتی تعیش‘‘ ہر گز نہیں ہے کیونکہ کسی کو بھی کسی کی بھی نجی زندگی میں دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تووہ اپنی ’’اوقات‘‘ دکھاتا ہے ۔لہٰذا اِس حوالے سے زندہ یا مردہ فرد یا افراد سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی اور میرا ادارہ یا یہ عاجز و گناہ گارلکھاری اِس کا قطعاً ذمہ دار نہیں ہوگا۔
جنوبی امریکہ اور بعض لاطینی ممالک میں کوکا نامی ایک ایسا پودا عموماً پہاڑوں پر پایا جاتا ہے جس کے پتے چبانے سے انسانی دماغ غیر معمولی طور پر ’’متحرک‘‘ ہوجاتاہے، سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق جنوبی امریکہ کے مقامی لوگ ہزاروں برسوں سے اِن پتوں کو چباتے چلے آرہے ہیں جس کے باعث اُن کے دماغ کے خلیات کچھ دیر کے لیے تحرک کے ہلکے اثرات میں رہتے ہیں اور بعض صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
بعد ازاں جب انسان نے ترقی کی مزید منازل طے کیں تو کوکا پودے کے اِن پتوں کو کشید کر کے ایک کیمیائی مادہ ’’الکلائڈ‘‘ تیار کیاگیا جسے عرف عام میں ’’کوکین‘‘ کہا جاتا ہے جسے انیسویں صدی تک روزمرہ کے استعمال کی بعض اشیائے خوردو نوش میں بھی تحرک پیدا کرنے کے لیے ڈالا جانے لگا جس کی سب سے بڑی مثال ایک سافٹ ڈرنک ہے (بوجوہ نام تحریر نہیں کررہا) جس نے1886ء میں اِن پتوں کو کشید کر کے اپنے مشروب میں شامل کیا اور بعد ازاں1903ء میں قانون بننے کے بعد اِس کا استعمال تَرک کردیا۔
دورِ جدید میں گلی کوچوں میں ملنے والی یہ ’’کوکین ‘‘ بالکل مہین پاؤڈر کی شکل میں ہوتی ہے جسے سانس اندر کھینچ کر نتھنوں میں موجود ایک خاص رگ کے ذریعے فوری طور پر دماغ تک پہنچایا جاتا ہے تا کہ ’’راحت‘‘ حاصل ہونے میں زیادہ دیر نہ لگے۔ویسے تو اِسے دھوئیں یا سرنج کے ذریعے بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن آخر الذکر دونوں طریقے خطرناک ہیں اور اِن سے دیگر بیماریوں کے حملہ آور ہونے کے خدشات کہیں زیادہ ہیں۔
کیمیا گروں کے نزدیک ’’کوکین‘‘ نشہ نہیں بلکہ ’’دوا‘‘ ہے یعنی ’’ڈرگ‘‘ ہے (مثبت انداز میں) جسے بعض اسپتالوں میں لوکل انستھیسیا کے طور پر کم مقدار کے ساتھ دیگر اجزا میں شامل کر کے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اطباء اور طبی شعبوں سے وابستہ افراد اِسے ایک پراسرار نشہ بھی قرار دیتے ہیں جو یقینی طور پر ’’عام شخص‘‘ اِس لیے استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ اِس کی اعلیٰ ترین کوالٹی اِس قدر مہنگی ہوتی ہے جس کا ہر ایک کی پہنچ میں ہوناقریباً ناممکن ہے۔
اِسی بنا پر اِس کو استعمال کرنے والوں میں شوبز کے معروف افراد،سیاست دان،سرمایہ دار،صنعت کار اور وہ کروڑ پتی افراد یا اُن کے بچے ہیں جن کے لیے لاکھ دو لاکھ روپے کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس قدر مہنگی’’کوکین‘‘ آخر کرتی کیا ہے ؟۔
دراصل نتھنوں کی ایک مخصوص رگ کے ذریعے اعصابی نظام تک پہنچنے والا انتہائی معمولی مقدار میں یہ پاؤڈر’’ڈوپامائن‘‘ میں خطرناک حد تک اضافہ کردیتا ہے… اورڈوپامائن دماغ کے اندر پیدا ہونے والا ایک قدرتی نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو ہر طرح کے کام انجام دیتا ہے…یادداشت کو تیز کرتا ہے ،حرکت میں اضافہ کرتاہے اور نفس کو ’’انعام‘‘ دے کر سکون پہنچاتا ہے ۔
صوفیائے کرام اِسی ڈوپامائن کو ’’رت جگوں‘‘…وظائف کی کثرت…اللہ کی تسبیح…رات بھر عبادات…مطالعے…تلاوت اور غور و تدبر کے ذریعے اِس نہج پر لے جاتے تھے کہ اُنہیں ’’کشف‘‘ کا مرتبہ حاصل ہوجاتا تھا اور یہ اِسی ڈوپامائن کی ’’فطری نہر‘‘ کے جاری ہونے سے ہوتا تھا جو کہ عارضی نہیں بلکہ دائمی طورپررواں رہتی تھی لیکن ’’کوکین‘‘ اِس ’’سونامی‘‘ کو غیر فطری طور پر استعمال کرنے والے کے اعصابی نظام میں ایسے ’’مزے ‘‘ کے ساتھ برپا کرتی ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد دوبارہ ’’کوکین‘‘ نہ لینے سے ہر طرح کی تباہی اور بربادی اُس کا مقدر بن جاتی ہے ۔
اِس کے استعمال سے انتہائی مسحورکن احساس یعنی اگر استعمال کرنے والا سیاست دان ہے تو اپنے آپ کو ’’وزیر اعظم‘‘ سے کم محسوس ہی نہیں کرے گا،توانائی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے ،جذباتیت اور خود اعتمادی اِس نہج پر پہنچ جاتی ہے کہ ’’بس جو میں کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے،میں غلط کہہ ہی نہیں سکتا،سب جھوٹے میں سچا،سب کرپٹ میں اچھا…میرے ساتھی سب سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہتر ’’ترین‘‘…اور گویا میرے سوا ملک و ملت کی تقدیر کوئی بدل ہی نہیں سکتا۔
دراصل یہ سب خیالات ڈوپا مائن کی اضافی پیدائش کے سبب پیدا ہوتے ہیں جسے فطرت کے برخلاف یعنی نفس کشی کے بجائے نفس کے آگے سر تسلیم خم کردینے سے حاصل کیا جاتا ہے …ڈوپامائن تو ایک ’’انعام‘‘ ہے۔ایک ایسا ’’انعام‘‘ جو نفسیاتی نظام دونوں طرح سے جسم کو فراہم کر سکتا ہے ،یعنی اگر شیطانی راہ پر چل کر یہ ’’انعام‘‘ پانا ہے تو وہ ’’جادو‘‘ ہے اور ابلیسی راہوں سے دامن بچاتے ہوئے یہی اجر حاصل کرنا ہے تو وہ ’’کرشمہ‘‘ ہے ۔
طبیبوں کے خیال میں جس شخص کی ذہنی حالت مناسب نہ ہو اور وہ پَل میں ماشہ پَل میں تولہ کے مصداق کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ یا کر سکتا ہو اُسے ’’کوکین‘‘ سے اُتناہی دور رہنا چاہیے جتنا زمین آسمان سے ہے۔کیونکہ اگر ’’مہلک مقدار‘‘ (اِس کا تعین مستعمل کی متعین مقدار پر ہے)میں ’’کوکین‘‘ لے لی جائے جو کہ عموماً مضطربانہ کیفیت،اعصابی تناؤ، کرب و غم اور شکست کی ذلت کے باعث لی جاتی ہے تو ایسا شخص کوئی بھی غیر معمولی فیصلہ کرسکتا ہے یا اچانک کوئی چونکا دینے والا کام سرانجام دے سکتا ہے ۔
اداکار ہے تو شاید زندگی کا بدترین شاٹ دے گا،سرمایہ دار ہے سارا پیسہ ڈبو سکتا ہے کیونکہ اُس وقت فشارخون مائل بہ بَلند ہوتا ہے ،دولت مند کی اولاد ہے تو ممکن ہے کہ اپنے ہی یار کو قتل کر ڈالے یا کسی کی عزت پر حملہ کردے ، کھلاڑی ہے تو میدان میں مغلظات بکے گا اور اگرشوہر ہے تو اِس کوکین کی زیادہ مقدار کی وجہ سے سکون حاصل کرنے کے بجائے بیوی کو طلاق ہی دے ڈالے گا‘‘!!!۔
روزنامہ جنگ
♣
One Comment