ظفر آغا
بھلا کون اردو والا ایسا ہے کہ جس نے مرزا غالب کا یہ شعر سنا یا پڑھا نہ ہوگا:۔
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
اور اس بات سے بھی سب خوب واقف ہیں کہ فلم مرزا غالب میں ثریا نے ان کی اس غزل کو ایسا خوبصورتی سے گایا کہ اس غزل کا ہر شعر عام و خاص کی زبان پر چڑھ گیا۔ لیکن چچا غالب اور ثریا کو یہ علم قطعی نہ رہا ہوگا کہ اگر وہ یوگی آدتیہ ناتھ کے اتر پردیش میں ہوتے اور عشق کی شان میں ایسا کوئی شعر کہتے یا گاتے تو ان کو دس سال تک کی قید بامشقت ہو سکتی ہے۔
جناب، اتر پردیش میں ایک معمولی سے ٹوئٹ پر لوگ جیل جا رہے ہیں۔ اگر کوئی صحافی ہے اور وہ ہاتھرز جیسے عصمت دری معاملے کی چھان بین کی جرأت کر رہا ہے تو اس پر ملک سے غداری کا مقدمہ قائم ہو رہا ہے۔ اور صوبہ کے تازہ ترین قانون کے حساب سے اگر کوئی عشق کی جرأت کر رہا ہے تو اس کو بھی جیل جانا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے غالب کی اس غزل سے متاثر ہو کر خدارا آتش عشق دل میں نہ لگا بیٹھیے گا ورنہ جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔
جی ہاں، ’لو جہاد‘ کے متعلق یو پی سرکار نے جو قانون پاس کیا ہے اس کے مطابق اب وہاں عشق بھی جرم ٹھہرا۔ یوں تو دو الگ مذاہب کے افراد کے درمیان شادی روکنے کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں دو الگ مذہب کے لڑکے لڑکیاں تب ہی شادی کرنے کی جرأت کرتے ہیں جب آتش عشق ان کو دیوانہ بنا دیتی ہے۔ چنانچہ اتر پردیش میں اب عشق حرام ٹھہرا۔ یہاں لفظ حرام کا استعمال کیا گیا کیونکہ عموماً کسی بات پر پابندی کے لیے مسلمانوں میں جیسے علماء اس بات کو فتویٰ دے کر حرام ٹھہرا دیتے ہیں اور پھر وہ بات یا عمل شرعاً ممنوع ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی ’لو جہاد‘ کے خلاف نئے قانون کے ذریعہ فتوے کے انداز میں عشق کو ممنوع قرار دے دیا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کوئی مولوی ملا تو نہیں، لیکن ایک مٹھ کے مٹھادھیش تو ہیں ہی، اور مٹھادھیشوں کا یہ چلن ہے کہ جو بات ان کو پسند نہیں وہ ان کے مٹھ میں ممنوع ہو جاتی ہے۔ اس لیے یوگی جی کو عشق پسند نہیں تو وہ اس کو ممنوع نہیں تو اور کیا کرتے!
لیکن یوگی جی کو یہ نہیں یاد رہا کہ اب محض مٹھادھیس ہی نہیں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔ اور ایک وزیر اعلیٰ کو ملک کے آئین کی چار دیواری کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یوگی جی شاید یہ بھول گئے کہ ملک کے قانون اور آئین کے تحت نہ تو عشق کوئی جرم ہے بلکہ دو فرقوں کے لوگ آپس میں شادی بھی رچا سکتے ہیں۔ لیکن یوگی ٹھہرے مٹھادھیش، ان کے لیے اب پورا اتر پردیش ان کا مٹھ ہے۔
اس لیے انھوں نے عشق کو ’لو جہاد‘ کی شکل دے کر آئین کی فکر کیے بغیر غیر قانونی ٹھہرا دیا۔ ظاہر ہے کہ ان کو آئین کی فکر نہیں۔ اور ہو بھی کیوں۔ یوگی جی جس سنگھ اسکول کے پڑھے لکھے ہیں، ان کے لیے بھی آئین کی قدر صرف اتنی ہے کہ اس کا استعمال کر کسی طرح اقتدار حاصل کر لو۔ سنگھ کا اصل آئین تو منوسمرتی ہے جس کے تحت دو فرقوں کی شادی تو جانے دیجیے، دو الگ ذات کے افراد بھی آپس میں بیاہ نہیں رچا سکتے ہیں۔
لیکن یوگی جی ایسے بھولے بھالے نہیں کہ ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ بقول غالب ’عشق پر زور نہیں ہوتا ہے‘۔ بس یہ تو ایک ’آتش‘ ہے جو کبھی بھی دو دلوں میں جل اٹھتی ہے اور پھر بجھائے نہیں بن پڑتی۔ یوگی جی خود لاکھ مٹھادھیس ہوں لیکن آتش عشق کا اندازہ تو ہوگا ہی۔ اور وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ ’لو جہاد‘ کے نام پر جس طرح دو فرقوں کے درمیان انھوں نے شادی حرام ٹھہرائی ہے، وہ آئین کی رو سے غلط ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی یوگی جی یہ ’لو جہاد‘ کا حوا کیوں کھڑا کر رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ نہ یوگی بھولے اور نہ ہی مودی سیدھے۔ دراصل ’لو جہاد‘ یوگی سے لے کر نریندر مودی تک پوری کی پوری بی جے پی کی سیاست ہے۔ یوگی کوئی اکیلے وزیر اعلیٰ نہیں جنھوں نے ’لو جہاد‘ کے خلاف قانون بنایا ہے۔ ارے بی جے پی کے دو وزیر اعلیٰ ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں بھی یہی قانون نافذ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ بی جے پی کی سیاست کی بنیاد بھی بھرم پھیلا کر اقتدار حاصل کرنے پر ہے۔ اور یہ بھرم یا حوا ایک فرضی دشمن کھڑا کر پیدا کیا جاتا ہے۔
دراصل بی جے پی ہندو ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی ایک فرقے کو اپنے حق میں کرنے کا پرانا نسخہ یہی ہے کہ دوسرے فرقے کو اس کا دشمن ٹھہرا دو۔ مودی جی تو سنہ 2002 سے یہ سیاست نہایت کامیابی سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی مسلم حوا گودھرا معاملے پر تو کبھی میاں مشرف کے نام پر تو کبھی پاکستان یا ملک کے اندر رہ رہے مسلمانوں کے نام پر وہ پیدا کر چناؤ جیتنے کے ہنر میں ماہر ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اب کی لو جہاد سہی۔
حقیقت یہ ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی مقبولیت بالکل ختم ہے۔ خود یوگی سے لوگ تنگ آ چکے ہیں۔ اتر پردیش میں لاقانونیت اپنے عروج پر ہے۔ وہاں دن دہاڑے قتل ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آئے دن عصمت دری کے معاملات سے بہو بیٹیوں کی عزت خطرے میں ہے۔ ویسے بھی یو پی ترقی کے نام پر ہمیشہ ہی پیچھے رہتا ہے۔ جب اس وقت پورے ملک کی معیشت ڈوبی ہوئی ہے تو پھر یو پی کا جو حال ہوگا وہ آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔ روزگار نہیں، کسان رو رہا ہے اور دھندے ٹھپ پڑے ہیں۔
ایسے سنگین حالات میں یوگی جی کیا مودی جی کو بھی اگلا چناؤ جتانے میں پسینے آ جائیں گے۔ اور سال بھر بعد چناؤ ہونے ہی ہونے ہیں۔ اب کرو تو کرو کیا۔ ارے بس وہی جو ہمیشہ ہوتا ہے، مسلمان کے کان مروڑو۔ یعنی کسی طرح مسلمان کو ہندو دشمن ٹھہرا دو۔ اس بار یہ ہوا ’لو جہاد‘ کے نام پر ہندو لڑکیوں سے مسلمان لڑکوں کے عشق اور شادی کے نام پر پیدا کیا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے خراب معاشی حالات میں بھی کیا لوگ پھر مسلم دشمنی میں بی جے پی کو جتا دیں گے! آپ اتر پردیش کے حالات سے تو واقف ہی ہیں۔ صوبہ ملک کے انتہائی پسماندہ صوبوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کوئی آدھا صوبہ جہالت کا شکار ہے۔ جو پڑھے لکھے ہیں وہ بھی ریتی رواج سے بندھے ہیں۔ اتر پردیش میں آج تک ہندو سماج میں بھی دقیانوسی رسم و رواج ختم کرنے کے لیے کوئی مذہبی یا سماجی تحریک نہیں چلی۔ ایسے پسماندہ سماج میں ’لڑکی کی عزت‘ منٹوں میں پوری قوم کی عزت بن سکتی ہے۔ بس اسی لیے یوگی جی اگلے برس چناؤ ہونے سے قبل لو جہاد کا بیج بو رہے ہیں تاکہ چناؤ میں مودی جی مسلم ہوا کھڑا کر اپنی تقریروں سے چناوی فصل کاٹ لے جائیں۔
اب ایسے سنگین حالات میں ہو تو ہو کیا! راستہ صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ حزب مخالف کی پارٹیاں عوام کے مسائل پر سخت جدوجہد کریں۔ اب اپوزیشن محض چناوی میٹنگ کرکے کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ ابھی بہار میں تیجسوی یادو نے بڑی بڑی چناوی سبھائیں کیں۔ لیکن آخر ہوا کیا۔ اویسی صاحب کے نام پر مودی نے ہندو دشمنی کا ہوا کھڑا کر آخر چناؤ جیت لیا۔ اور جیت میں جو تھوڑی بہت کسر تھی، وہ ووٹوں کی گنتی کے وقت لوٹ کے ذریعہ پوری کر لی گئی۔ بس یہی صورت حال کچھ اتر پردیش کی ہونے والی ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ ’لو جہاد‘ تو ایک بہانہ ہے، چناؤ اصل نشانہ ہے۔
خیر، یوگی جی لاکھ کوشش کر لیں، عشق تو پھر عشق ہی ہے، وہ بھلا کون روک سکتا ہے۔ کیونکہ بقول مرزا غالب ’ہے یہ وہ آتش کہ لگائے نہ لگے، اور بجھائے نہ بنے‘۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی