بیرسٹر حمید باشانی
ایک وقت ایسا تھا کہ جب دنیا میں یہ مانا جاتا تھا کہ آزادمیڈیا کے بغیرجمہوریت کی بقا ناممکن ہے۔ اس بات پر بڑے پیمانے پر اتفاق موجود تھا کہ آزاد میڈیا کے بغیر اور آزادی اظہار رائےکے بناجمہوریت خاموشی سے مر جاتی ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں میڈیا کی آزادی کو جمہوریت کی بنیادی شرط قرار دیا گیا۔
لیکن جوں جوںسوشل میڈیا سماج کے اندر اپنی جگہ بناتا جا رہا ہے ،توں توں دنیا بھر میں حکمران اشرافیہ کے میڈیا کی آزادی کے بارے میں تحفظات بڑھتے جا رہے ہیں۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ، لیکن سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا تک عام آدمی کی رسائی اور دلچسبی بڑھتی جا رہی ہے۔کچھ وقت پہلے دنیا میں ایسے لاکھوں کروڑوں افراد تھے، جو عام دھارے کےمیڈیا پر انحصار کرتے تھے، جن کو حکمران اشرافیہ آسانی سے سرکاری اثر ورسوخ کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھ سکتی تھی۔ مگر اب سوشل میڈیا کی موجودگی اور فروغ سے ایسا کرناناممکن ہو تا جا رہا ہے ۔ اب اطلاعات و خیالات کی گردش کا مرکز سوشل میڈیا بنتا جا رہاہے۔
ان حالات میں حکمران اشرافیہ کو یہ سوال در پیش ہے کہ ایک جمہوری سماج میں سوشل میڈیا سے کیسے مقابلہ کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ترقی اور عام آدمی کی اس تک رسائی سے جو نئی صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس کے بارے میں کیا پالیسی اپنائی جائے ۔ یہ ایک دلچسپ مگر پیچیدہ سوال ہے ۔ اس وقت ترقی یافتہ دنیا اور ترقی پذیر دنیا میں انٹرنیٹ پلیٹ فارمز عام میڈیاکی نسبت بہت تیز رفتاری سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ بڑے پلیٹ فارمز میں جو سب سے زیادہ نمایاں ہیں، ان میں ایمازون، فیس بک،گوگل ، یو ٹیوب، ٹویٹر جیسے طاقت ور پلیٹ فارمز شامل ہیں ۔
یہ ادارے معاشی طاقت بھی رکھتے ہیں ، اور ان کو سماج میں بہت بڑا سیاسی کنٹرول بھی حاصل ہوچکا ہے۔یہ اب معلومات اور سیاسی موبلائزیشن کے ایک بڑے حصے کو کنٹرول کرتے ہیں، جس سے اشرافیہ کے روایتی مفادات پر ضرب پڑتی ہے ۔ اس لیے اب حکمران اشرافیہ کے ایک حصے کی یہ رائے بنتی جا رہی ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز اور ادارے خودجمہوریت کیلئے ہی خطرہ ہیں۔
اس سوچ کے نتیجے میں دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے سے خوف زدہ طاقت ور حلقے ان اداروں پرپابندی کے بارے میں غور وفکر کر رہے ہیں۔ یہ عمل صرف پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں ہو رہا، بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی کچھ حکمران اسے خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال یورپی یونین کی طرف سے ان اداروں کے خلاف اینٹی ٹرسٹ قانون بنانے کی کوشش ہے۔ امریکہ میں بھی اس باب میں ایسی قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ امریکہ میں اس وقت دائیں اور بائیں بازو کے مکاتب فکر دونوں اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر ان اداروں کے خلاف ہیں۔
دائیں بازو کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ادارے قدامت پرستی کے خلاف جانب دارانہ بغض رکھتے ہیں، اورقدامت پرست نظریات رکھنے والی قوتوں کے فطری حریف ہیں ۔جبکہ دوسری طرف بائیں بازو کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کے ذریعے غیر ملکی قوتیں امریکی رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ ان اداروں کو قابو کرنے کے لیے مختلف قسم کےقوانین اور طریقوں پر غور ہو رہاہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو بعض ملکوں میں ان اداروں کو پابند کرنے کے لیے ان کے خلاف سخت قوانین بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ اور کچھ ممالک کا خیال ہے کہ ان پلیٹ فارمزپر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا اجارہ داری کا کردار ختم کیا جائے اور اس مقصد کے لیے دوسری مقابل کمپنیوںکو سامنے لایا جائے ، جو صارفین کے لیے متبادل پلیٹ فارم مہیا کر سکیں ۔ان لوگوں کے خیال میں اس طرح کے مقابلے کی فضا میں یہ پلیٹ فارمز ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔یہ لوگ اس مسئلے کو معاشی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں کھلے مقابلے اور کھلی منڈی کی منطق کا اطلاق سوشل میڈیا پر بھی ہوتا ہے،اور یہی اس کا علاج بھی ہے۔ کھلے مقابلے کی فضا میں اچھے اور زمہ دار پلیٹ فارمز سامنے آئیں گے، اور منفی پلیٹ فارمز کی بقا مشکل ہو جائے گی۔
اس طرح ان کے خیال میں معاشی نقطہ نظر سے ان کمپنیوں کو کنٹرول کرناآسان ہے ۔ اگرچہ یہ ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے ۔ لیکن جہاں تک سیاسی سوال کا تعلق ہے ،تو اس سلسلے میں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سیاسی طور پر نقصان دہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا آگے چل کرجمہوریت کے لیے بھی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ وہ اس کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا میں فیک نیوز ، سازشی نظریات اور کانسپیریسی تھیوریز ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سوشل میڈیا کے طفیل عوام کی رسائی عموما اسی طرح کی معلومات تک ہوتی ہے، جس پر وہ پہلے سے یقین رکھتے ہیں ۔اور اس طرح خاص قسم کی سوچ اور نظریات کو عوام کے ایک خاص طبقے میں مقبول کرنا ممکن اور آسان ہوجاتا ہے۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کی معاشی اور سیاسی طاقت ایک بھری ہوئی بندوق کی طرح ہے، جو میز پر رکھی ہے۔ اور اس میز کی دوسری طرف بیٹھے ہوئے لوگ کسی وقت بھی یہ بندوق اٹھا کر ٹریگر دبا سکتے ہیں۔ اس طرح سوال یہ درپیش ہے کہ کیا یہ بھری ہوئی بندوق ٹیبل پر رکھنا محفوظ ہے؟اس وقت سوشل میڈیا کی غیر معمولی طاقت پر قابو پانے کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان کی ایک نمایاں مثال جرمنی بھی ہے،جہاں جھوٹی خبر چلانا اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنا ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت دنیا میں ہر ملک اپنی اپنی بساط اور سمجھ کے مطابق سوشل میڈیا کو قابو کرنے پر غور کر رہا ہے، اور اس سلسلے میں نت نئی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اس باب میں کافی قانون سازی ہوئی ہے۔ اس قانون سازی کے پیچھے زیادہ تر ان قوتوں کا دباؤ رہا ہے، جو خود اپنے نظریات و خیالات کے پرچار کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، لیکن دوسروں کے خیالات سے درگزر نہیں کر سکتے، اور ان سے رواداری کا سلوک نہیں کرسکتے۔آزادی اظہار رائے پر یقین رکھنے والے دانشور اور انسانی حقوق کے علمبردار اس طرح کی قانون سازی کو اظہار رائے پر پابندی کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
لیکن جہاں تک سوشل میڈیا سے جمہوریت کو خطرے والی بات ہے تو اس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ خطرہ افراد کے ان محدود گروہوں کو ہے، جو جمہوریت کے نام پر اشرافیہ و مراعات یافتہ طبقات پرمشتمل ایک محدود گروہ کی ” اولیگارکی ” کو جمہوریت قرار دینے پر بضد ہیں۔ سوشل میڈیا سے یہ اس لیے خوف زدہ ہیں کہ یہ میڈیاان کے مفادات کو عوام میں بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
♣