پاکستان میں مسیحی برادری کی جانب سے ایک نوجوان مسیحی لڑکی کے قتل کی شدید مذمت کی جارہی ہے جبکہ مسلمان برادری چپ سادھے ہوئے ہے۔ مقتولہ سونیا بی بی نے مبینہ طور پر ایک مسلمان شخص سے شادی کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے انکار کیا تھا۔
راولپنڈی میں تیس نومبر کو ایک چوبیس سالہ مسیحی لڑکی سونیا بی بی کو مبینہ طور پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ سونیا بی بی راولپنڈی کے گھروں میں ملازمہ کےطور پر کام کرتی تھی۔ یونین آف کیتھولک ایشین نیوز (یو سی اے این) کی رپورٹ کے مطابق سونیا کو تیس نومبر کی صبح ساڑھے نو بجے راولپنڈی کے فضائیہ اسٹاپ پر سر میں گولی ماری گئی۔ سونیا ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔
کیتھولک نیوز ایجنسی کے مطابق مقتولہ سونیا کے والدین سے شہزاد نامی ایک مسلمان شخص نے شادی کے لیے رشتہ مانگا تھا۔ تاہم سونیا کے والد اللہ رکھا مسیح نے اس رشتے سے انکار کر دیا کیونکہ ’لڑکی کا تعلق مسیحی عقیدے سے جبکہ لڑکا مسلمان تھا‘۔
مقتولہ کے والد نے یو سی اے نیوز سے بات کرتے ہوئے سونیا کے قتل کا الزام شہزاد اور اس کے ایک دوست پر عائد کیا ہے۔ اللہ رکھا مسیح کے بقول، ’’شہزاد میری بیٹی کا پانچ ماہ سے پیچھا کر رہا تھا اور رشتے سے انکار کے بعد اس نے سونیا کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی تھی‘‘۔
سونیا بی بی کی والدہ نے اپنی بیٹی کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پولیس نے مسلمان ملزم شہزاد کو حراست میں لے لیا ہے تاہم اس واقعہ میں ملوث شہزاد کا ایک دوست ابھی تک فرار ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پاکستانی مسیحی برادری نے سونیا بی بی کے قتل کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے مذہب کے تحفظ کے عزم کی پذیرائی بھی کی ہے۔ پاکستان میں مسیحی اقلیتوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن سیمسن سلامت نے فیس بک پر ہیش ٹیگ سٹاپ وائلینس انگیسٹ وومن کے ساتھ ایک پوسٹ میں لکھا، ’’چوبیس سالہ سونیا اس لڑکے کے ساتھ شادی کر کے اپنی زندگی بچا سکتی تھی لیکن اس نے یہ نہیں کیااور اس لیے اس کو قتل کردیا گیا۔‘‘۔
لاہور میں پروٹیسٹنٹ چرچ کے بشپ کے سابق مددگار پادری ریاض عارف ملک نے یو سی اے یو نیوز کو بتایا کہ ’’اس بہادر لڑکی نے اپنے کنبے کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے اپنے خاندان کی عزت بچائی ہے‘‘۔
پاکستان میں مسلمان مردوں سے شادی سے انکار کرنے پر اکثر مسیحی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سن 2018 میں سیالکوٹ شہر میں اسی طرح کے ایک واقعے میں 25 سالہ مسیحی لڑکی عاصمہ یعقوب مسیح کو ہلاک کیا گیا تھا۔ شادی سے انکار کرنے کی وجہ سے ایک مسلمان لڑکے نے عاصمہ پر تیل چھڑک کر اسے آگ لگا دی تھی۔ عاصمہ کا اسی فیصد جسم جھلس گیا تھا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی نوجوان ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے جبری طور پر اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور اس کی شادی کی نوجوان سے کردی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان کی عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں مسیحی اور ہندو مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو ہر سال مسلمان مردوں کے ساتھ شادی پر مجبور کرتے ہوئے جبری مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان اس رجحان کو ایک ’منظم عمل‘ قرار دیتے ہیں۔
dw.com/urdu & web desk