کرونا وائرس کی ویکسین ایک ریکارڈ مدت میں تیار ہوئی ہے اور امریکہ میں اگلے ہفتے سے اس کی ڈسٹری بیوشن شروع ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ آنے والے ہفتوں میں سائنسی علم کی بنیاد پر کچھ اور ویکسینز بھی عوام کے لئے دستیاب ہوں گی۔
ہمارے ہاں ایک طبقہ کرونا وائرس کے متعلق کچھ سازشی تھیوریاں پھیلا رہا ہے جس کے مطابق کسی بھی ویکسین کو تیار کرنے کے لیے کئی سال درکارہوتے ہیں۔ اور یہ جو دعویٰ کیا جارہا ہے کرونا وائرس کی جو ویکسین اتنی جلد تیار کی گئی ہےا س کا مقصد کچھ کمپنیوں کا دولت کمانا ہے۔
ہمارے ہاں ویکسین کے بارے میں بنیادی معلومات یہ ہیں کہ ویکسین متعلقہ بیماری کے کمزور جراثیم یا وائرس لیبارٹری میں تیار کیے جاتے ہیں اور بعدازاں انسانی جسم میں داخل کیے جاتے ہیں اور انسانی جسم خود اس بیماری کے خلاف مدافعت کرتاہے۔ اسے ایک روایتی طریقہ کہا جاتا ہے۔ اور ایسی ویکسین کو تیار کرنے اور پھر ٹرا ئل میں وقت علیحدہ سے لگتا ہے۔ اس کے بعد کلینکل ٹرائل شروع ہوتے ہیں۔
سائنسی طریقہ کار کے مطابق اس سارے عمل میں سال ہا سال درکار ہوتے ہیں۔ عام طور پر کسی بھی دوائی کو پہلے دن سے لے کر مارکیٹ میں آنے تک قریبا بیس سال درکار ہوتے ہیں۔ لیکن کرونا وائرس کی جو پہلی ویکسین تیار کی گئی ہے اس کے متعلق امریکہ کے ٹاپ سائنٹسٹ ڈاکٹر فاوچی نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مائیکرو بیالوجی اور جینٹکس اتنی ترقی کرگئی ہے کہ اب ہم ڈی این اے سے فوری طور پر معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ڈی این ایک کوڈ ہے جو سیل کی ساخت اور کارگردگی کا ذمہ دار ہے۔ آر این اے اس کوڈ سے ہدایات لے کے سیل کو ضرورت کے مطابق مختلف قسم پروٹین بنانے کا پیغام پہنچاتا ہے۔ یوں ڈی این اے کے حکم پر، آر این اے کے پیغام اور سیل کے اندر حکم کی بجاآوری کا ایک مربوط نظام ہے۔ اس سارے عمل کو سیلولر فنکشن کہتے ہیں جو جسم میں مختلف تبدیلیوں کا موجب بنتا ہے۔
ڈاکٹر فاوچی نے بتایا ہے کہ اب سائنس اس مقام پر ہے کہ کرونا یا کووڈ 19 کے وائرس کے خلاف ویکسین بنانے کے لئے ایک نیا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کرونا یا کووڈ19 میں ڈی این اے نہیں ہوتا۔ یہ اتنا سادہ وائرس ہے کہ اس کا جنیٹک میٹیریل آر این اے ہے۔ اس میں سے آر این اے کا وہ حصہ جس سے بیماری تو پیدا نہیں کرتا، مگر انسانی جسم اس کو اصلی وائرس ہی سمجھتا ہے، اسے انسان کے آر این اے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ آر این اے پیغام رسانی کرتا ہے۔ اس ٹیکنیک کے نتیجے میں جب پروٹین بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے تو انسانی جسم خود ہی پہلے کووڈ وائرس کی پروٹین بناتا ہے جو بیماری پیدا کرنے کے قابل تو نہیں ہوتی، مگر انسانی جسم اسے وائرس ہی سمجھتا ہے اور اس کے خلاف دفاعی مادے پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر فاوچی نے بتایا ہے کہ نو جنوری 2020 کو چین نے کرونا وائرس کے جنیٹک سٹرکچر کا ڈیزائن جو آر این اے سے بنا ہوا ہے، جاری کیا تو دس جنوری کو ہم نے امریکہ میں اپنے دفتر میں سائنٹسٹ کی میٹنگ میں اس کے آر این اے کا مطالعہ کیا اور چار دن کے اندر ہی بائیو ٹیک کمپنی میڈرونا نے اس کی ویکسین تیار کر لی اور اس کے کلینکل ٹرائل شروع ہوئے۔ پہلے اسے بندروں پر آزمایا، پھر اس کے انسانوں پر ٹرائل شروع ہوئے اور جولائی 2020 میں اس کے فیز تھری ٹرائل شروع ہو گئے تھے۔
تفصیل کے لیے آپ درج ذیل ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں
نیا زمانہ رپورٹ