امریکی دانشور نوم چومسکی ہمارے ہاں امریکی پالیسیوں کےناقد کے طور پرمشہور ہیں۔ ہمارا میڈیااوردانشوراپنےامریکہ مخالف بیانیہ کو قابل اعتباربنانے کے لئے امریکی انتظامیہ کی اندرونی اوربیرونی پالیسوں کے بارے میں نوم چومسکی کے بیانات اور خیالات کا سہارا لیتے ہیں ۔
حبیب یونیورسٹی کراچی کے طلبا اوراساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے نوم چومسکی نے پاکستان کی پسماندگی کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سائنسی تعلیم کو نظرانداز کرنےاورتوہمات سے وابستگی کوقراردیاہے۔
چومسکی نے اپنے لیکچر میں پاکستان میں سائنس سے دوری کے رجحان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سائنس کو ملک کے مستقبل کے لیے تعلیم کے نظام میں مربوط انداز سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ چومسکی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سائنس سے دوری اور ‘مذہبی فریب‘ کے راستے پر قائم رہتا ہے، تو اس کا اس کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔ ”ایک وقت تھا کہ پاکستان ایک جدید سائنسی اسٹیبلشمنٹ تھا۔۔ ۔ اس ملک کے پاس نوبل انعام یافتہ لوگ تھے۔ مگر اب سائنس اس ملک سے غائب ہو چکی ہے۔ ملک مذہبی فریب میں پھنسا رہا، تو پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا‘‘۔
وہ دانشورجو نوم چومسکی سےامریکی انتظامیہ کی مذمت سننا چاہتے تھے،کو بہت مایوسی ہوئی ہے۔ان کا خیال اور توقع تھی کہ نوم چومسکی پاکستان کی مشکلات کا ذمہ دارامریکہ کو ٹھہرائیں گے اورپاکستان کو مظلوم قراردے کراس کی حکمران اشرفیہ کوکلین چٹ دے دیں گے۔
پاکستان میں سائنس کی پسماندگی اورتوہمات سے وابستگی کی جڑیں ہمارے نظام تعلیم بالخصوص نصاب تعلیم میں پیوست ہیں۔سائنس پڑھنے کا مطلب رٹو طوطا بننا نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں سائنسی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ہمارا نصاب تعلیم مذہبی عقائد کے تابع ہےاورسائنس اورمعروضیت سے اس کو کوئی علاقہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سائنس پڑھنے کا مطلب ہے میڈیکل کالج یا انجنئئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہوکر ڈاکٹر یا انجنئیر بننا ہے۔
سائنس کو ایک زندہ علم کے طورپر پڑھنا اوراس کومشاہدات اور تجربات کی روشنی میں پرکھنا اور اسے آگے لےکر چلنے کا رحجان ہمارے ہاں طلبا اوراساتذہ دونوں میں نہیں ہے۔ہمارے ہاں سائنسی علم کا یہ حال ہے کہ ہماری میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ یہ کہتے ہیں کہ وضو کرنے والے شخص کو کرونا نہیں ہوتا۔یا کرونا مسجد کا رخ نہیں کرسکتا اس لئے کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
پاکستان کو درپیش ہر مشکل اور مسئلے کا ذمہ دار امریکہ یا مغربی طاقتوں کو قرار دینے کا مغالطہ ہماری حکمران اشرافیہ کا پھیلایا ہوا ہے۔ جبکہ آئیڈیالوجسٹ (لیفٹ اور رائٹ کے افراد) بھی اسی تھیوری کو پرموٹ کرتے ہیں ۔ امریکہ نے پاکستان کو اپنے بین الاقوامی اور علاقائی مفادات کے لئے ضرور استعمال کیا ہےلیکن اس نے پاکستان کی سول اور عسکری اشرافیہ کو اس کی کارکردگی کا معقول معاوضہ بھی دیاہے۔
ہمارے مسائل اور مشکلات کا باعث ہماری اشرافیہ کی معاشی، سیاسی اور سماجی پالیسیاں ہیں اور یہ پالیسیاں ہماری اشرافیہ نے بنائی ہیں۔ اس لئے امریکہ امریکہ کہہ کر ہم بالواسطہ طور پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کررہے ہوتے ہیں۔پاکستان اگر مسائل کی دلدل سے نکلنا چاہتا ہے تو حکمران اشرافیہ کو اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیاں کو ذمہ دار امریکہ کو قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کی پالیسی اب زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔
لیاقت علی