پاکستان کے سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم کو رینجرز کی طرف سے گرفتار کیے جانے کے 95 روز بعد جب پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا تو ریمانڈ کے معاملے پر حکومت سندھ اور رینجرز بھر آمنے سامنے آگئے۔
پیرا ملٹری فورس رینجرز نے حفاظتی تحویل کی 90 روزہ مدت ختم ہونے کے بعد 25 نومبر کی شام نارتھ ناظم آباد تھانے میں ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ جس میں الزامات عائد کیے گئے کہ ڈاکٹر عاصم نے اپنے دونوں اسپتالوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلوں میں زخمی ایم کیو ایم، لیاری گینگ وار اور کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو طبی سہولیات فراہم کی اور دہشت گرد علاج کے بہانے ان کے اسپتال میں روپوش رہے۔
الزامات میں کہا گیا ہے کہ ملزم یہ کام ایم کیو ایم کے رہنماؤں رؤف صدیقی، وسیم اختر، انیس قائم خانی اور سلیم شہزاد کے علاوہ پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے سابق صدر قادر پٹیل کے کہنے پر یہ کام کرتے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ڈاکٹر عاصم نے بطور وفاقی وزیر پیٹرولیم بھی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور پاکستان اسٹیٹ آئل، سُوئی سدرن گیس کمپنی میں رشوت لے کر ملازمتیں اور ٹھیکے دیے۔
مقدمہ درج ہوتے ہی ڈاکٹر عاصم حسین کو پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ جو ریمانڈ کے لیے ڈاکٹر عاصم حسین کو کراچی میں سندھ ہائی کورٹ لائی اور انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں پیش کیا۔
پولیس نے عدالت سے چار روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا نقوی نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کو بغیر کسی ثبوت کے حراست میں لیا گیا تھا اور وہ 95 روز سے رینجرز کی تحویل میں ہیں۔ رینجرز کے پاس سوائے ڈاکٹر عاصم کے اعترافی بیان کے کوئی دوسرا ثبوت موجود نہیں اور اس بیان کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
عامر رضا نقوی ایڈوویکٹ نے مقدمہ کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ بطور ڈاکٹر، عاصم حسین کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ زخمیوں کی جان بچائیں۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پولیس کی تحویل میں گزشتہ روز آئے ہیں اور ان سے تفتیش اور شواہد اکھٹے کرنے کے لیے فی الحال چار روز کا ریمانڈ دیا جائے۔ 30 نومبر کو سماعت میں پولیس کے پاس مزید 10 روزہ ریمانڈ کا قانونی حق محفوظ رہے گا۔ رینجرز کے پراسیکیوٹر نے تاہم مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ریمانڈ پیپر پر 14 روز لکھا گیا تھا جسے اوور رائٹنگ کر کے 04 کردیا گیا ہے۔
شہادت اعوان نے رینجرز کے پراسیکیوٹر کو بتایا کہ مقدمہ پولیس کا ہے اور وہ پورے سندھ کے پراسیکیوٹر جنرل ہیں، اگر رینجرز پراسیکیوٹر مقدمہ لڑنا چاھتے ہیں تو پہلے وکالت نامہ جمع کرائیں۔ جبکہ ڈاکٹر عاصم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل 95 روز سے اہل خانہ سے دور ہیں لہذا اگر ریمانڈ دینا ضروری بھی ہے تو ڈاکٹر عاصم کو گھر پر ہی نظر بند کردیا جائے۔
عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد چار روزہ جسمانی ریمانڈ کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر مقدمہ کی پیش رفت سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔ڈاکٹر عاصم پر درج کرائے جانے والے مقدمے میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے چار رہنماؤں کے کہنے پر غلط کام کرتے رہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق رینجرز نے بہت سوچ سمجھ کر مقدمہ درج کرایا ہے کیونکہ ڈاکٹر عاصم نے دوران تفتیش ایسے ہی اعترافات کیے ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات اس وقت سے متعلق ہیں جب سابق دور حکومت میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شریک اقتدار تھے۔
تاہم ایم کیو ایم اور لیاری میں متحارب گروہوں کےدرمیان جاری لڑائی کے باعث ایم کیو ایم کے زخمیوں کو ضیاالدین اسپتال، نارتھ ناظم آباد اور لیاری گینگ وار کے زخمیوں کو کلفٹن برانچ میں علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی تھی۔ مگر کالعدم تنظیموں کے حوالے سے کوئی بھی بات کہنا حتمی نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقدمے میں ایم کیو ایم کے جن چار رہنماؤں کے نام لیے گئے ہیں ان میں سے دو بیرون ملک ہیں، وسیم اختر، ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کے آئندہ میئر کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں جبکہ رؤف صدیقی کو الطاف حسین سے قربت کے باعث اس مقدمہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد اسپتال کی دونوں برانچوں پر مارے جانے والے چھاپوں میں ایسے متعدد مریضوں کا ریکارڈ تحویل میں لیا ہے جو ڈاکٹر عاصم کے خلاف بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے۔
نیب ترجمان قدسیہ قادری نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف تین ریفرنسز کی تحقیقات آخری مراحل میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریفرنسز پی ایم ڈی سی، سوئی سدرن گیس کمپنی اور ڈاکٹر ضیاالدین فاؤنڈیشن کی زمین کے حصول میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے متعلق ہیں۔
DW
2 Comments