لیاقت علی
مارچ 1971 میں آپریشن سرچ لائٹ کے آغاز ہی میں شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ پہلے پہل انھیں ڈھاکہ چھاونی ایک پرائمری سکول میں رکھا گیا تھا لیکن بعد ازاں انھیں ایسٹرن کمانڈ کے گیسٹ ہاوس میں منتقل کردیا گیا کیونکہ فوجی حکام کو خطرہ تھا کہ بنگلہ دیشی تحریک کے کارکن انھیں فوجی حراست سے چھڑا کر نہ لے جائیں۔ چند دنوں بعد انھیں مغربی پاکستان منتقل کردیا گیا۔
یہاں ایک فوجی ٹربیونل کی سربراہی بریگیڈئیر رحیم الدین کررہے تھے، میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انھیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انھیں لائل پور( حال فیصل آباد) جیل میں رکھا گیا تھالیکن بعد ازاں انھیں میاںوالی جیل میں منتقل کردیا گیا تھا۔ جس وقت شیخ مجیب الرحمن کو میانوالی جیل منتقل کیا گیا تھاانہی دنوں بھارت کا ایک جاسوس موہن لعل بھاسکر عرف اسلم جاسوسی کے الزام میں وہاں سزا کاٹ رہا تھا۔ بھاسکر نے رہائی کے بعد بھارت جاکر اپنے قیام پاکستان کے حوالے سے ایک کتاب لکھی تھی جس کانام تھا: میں ساں پاکستان وچ بھارت دا جاسوس۔
اپنی اس آپ بیتی میں اس نے شیخ مجیب الرحمن جو وہاں مقید تھے، بارے بھی کچھ باتیں لکھی ہیں۔ بھاسکر لکھتا ہے کہ اب تک خبروں کی مطابق شیخ مجیب لائل پور جیل میں تھے۔ سردی ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ رات کو ایک ہیلی کاپٹر جیل کے صحن میں اترا۔ہم اس وقت کوٹھٹریوں میں بند تھے۔اگلے دن صبح پتہ چلا کہ لائل پور جیل میں شیخ مجیب کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انھیں میاںوالی جیل میں عورتوں کی بارک میں رکھا گیا تھا۔ اس بارک کی قیدی عورتوں کو دوسری بارک میں بھیج دیا گیا تھا۔
عورتوں کی یہ بیرک 10 نمبر بیرک کے عقب میں واقع تھی۔ہم بھارتی قیدیوں کو بھی دس نمبر بیرک میں منتقل کردیا گیا تھا۔شیخ مجیب کی بیرک کے چاروں اطراف سخت فوجی پہرا تھا۔ ان کاباورچی ا ن کے لئے مچھلی اور چاول تیار کیا کرتا تھا۔ایک دن جیل میں یہ خبر پھیلی کہ شیخ مجیب بھی وہاں آگئے ہیں تو میانوالی کے ان پڑھ پٹھان اپنی بیرکوں کی چھتوں پر چڑھ کر شیخ مجیب الرحمان کو ماں بہن کی غلیظ گالیاں دینے لگے۔ پرانےجوتے اور پتھر عورتوں کی بیرک جہاں شیخ مجیب الرحمان مقیم تھے پر مارنے لگے۔
بیرک کے پہرے پر متعین سپا ہیوں کو بھی کچھ جوتے اور پتھر لگے۔ لہذا جیل کی گارڈ نے ڈیوڑھی کی چھت پر چڑھ ہوائی فائرنگ کی جس سے دہشت زدہ ہوکر وہ نیچے اتر گئے لیکن اپنی اپنی کوٹھڑیوں سے شیخ مجیب کو گالیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اس پر جیل سپرنٹنڈنٹ چوہدری نصیر نے جیل کا راونڈ لگایا اور قیدیوں سے کہا” آپ لوگ اطمینان سے رہیں۔ شیخ مجیب کو یہاں پھانسی دینے کے لئے لایا گیا ہے“۔ یہ سنتے ہی قیدیوں نے جوش وخروش سےیا علی یاعلی کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔
ایک مرتبہ ہماری بیرک میں سپرنٹنڈنٹ جیل فضل داد نمبردار کے ساتھ آیا اور بولا” آٹھ بھارتی قیدی باہر نکال کر لاو۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔اس نے ہمیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا۔جب ہم عورتوں کی بیرک کے پاس پہنچے تو تو فضل داد نے ہمیں حکم دیا کہ تم کو وہاں تک ایک آٹھ فٹ لمبا چار فٹ چوڑا گہرا گڑھا کھودنا ہے۔ ہم فورا بھانپ گئے کہ آج رات شیخ مجیب کو پھانسی دی جائے گی۔ ہم شیخ مجیب کی قبر کھودنے لگے ہم میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ پوچھتے کہ یہاں کس کی قبر کھدوائی جارہی ہے۔ پاکستانی قیدیوں کو قبر کھودنے کے لئے اس لئے نہیں لایا گیا تھا کہ کہیں یہ خبر جیل سے باہر نہ پہنچ جائے۔
One Comment