وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں تشدد کم کرنےکی ذمہ دار صرف طالبان پر عائد نہیں ہوتی۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ بیان بدھ کو افغان طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد دیا، جو پاکستان کے تین روزہ دورے پر سولہ دسمبر کو آیا تھا۔ وفد کی قیادت اہم طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔
طالبان کا دورہ پاکستان، امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے دورے کے بعد ہوا۔ واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان میں کئی حلقے افغان طالبان کو نہ صرف افغانستان میں بدامنی اور دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں بلکہ ان کی تحریک کو وہ پاکستان کے سماجی ڈھانچے کے لیے بھی خطرناک سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاہ محمود قریشی کا یہ بیان افغان طالبان کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔
معروف دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ ’’اور اگر شاہ محمود قریشی ان کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تو انہیں دہشت گردوں کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاحوں سے واقفیت نہیں۔ طالبان تو صرف نام دے دیا گیا ہے۔ درحقیت یہ دہشت گردی کا معاملہ ہے، جس کا مقصد افغانستان کی تقسیم ہے لیکن اگر ایسا کوئی عمل ہوتا ہے تو یہ صرف وہاں تک ہی محدود نہیں رہے گا‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے طالبان سے مذاکرات کر کے ان کے حوصلے بڑھائے ہیں۔ ”امریکا نے ختم ہوتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے کر دہشت گردی کو ہوا دی، جس سے وہاں تشدد میں اضافہ ہوا۔ تو امریکا بھی اس تشدد کا اس حوالے سے ذمہ دار ہے‘‘۔
یادرہے کہ خیبر پختونخواہ پاکستان کا وہ صوبہ ہے جو سب سے زیادہ طالبان کی دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے۔ پاکستانی ریاست کی روس کے خلاف جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈیورنڈ لائن کے آر پار لاکھوں افراد اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔اس ظلم کے خلاف اب پختون عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور پختون تحفظ موومنٹ کی شکل میں ایک مضبوط تحریک نے اس خطے میں ابھری ہے جو طالبان کے مظالم کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔پختون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست ابھی بھی فاٹا اور اس کے ملحقہ علاقوں میں طالبان کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔
dw.com/web desk