ایمل خٹک
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے کافی بحث اور مباحثے ہورہے ہیں ۔ بلاشبہ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک نے ملکی سیاست میں کافی گہماگہمی اور ہل چل پیدا کی ہے ۔ اور اس تحریک کے شاکس اور آفٹر شاکس اقتدر کے ایوانوں میں محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ پی ڈی ایم جیسی تحریکوں کے اثرات صرف جلسوں سے یا جلسوں میں شرکاء کی تعداد سے نہیں بلکہ اس کے بیانیے ، اثرات اور اس کی عوام میں پذیرائی اور قبولیت سے لگایا جاسکتا ہے ۔
پی ڈی ایم کا بیانہ ایک غیر روایتی اور جراتمندانہ بیانیہ ہے ۔ جو سیاست میں بعض ریاستی اداروں کی مداخلت اور انتخابات پر اثرانداز ہوکر عوامی مینڈیٹ چرانے کے خلاف اور ووٹ کو عزت دینے کا ہے ۔ سادہ الفاظ میں پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ ریاستی اداروں یعنی فوج اور اس کے ماتحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت اور پولیٹیکل انجینئرنگ کا خاتمہ ہو اور انھیں ملکی آئین اور قانون کی دائرے میں رہتے ہو ئے اپنے پیشہ وارانہ فرائض پر توجہ مرکوز کرنا چا ہیے ۔
اس طرح پی ڈی ایم کے اس بیانیے کہ انتخابات چوری کرکے موجودہ حکومت کو لانے ، اس کو بچانے اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں سلیکٹرز کا بھی اہم رول ہے کو پذیرائی مل رہی ہے ۔ اور عوامی تنقید اور غم وغصے کا رخ اب سلیکٹرز کی طرف بھی مڑ گیا ہے ۔ اب کوئی ادارہ یا شخصیت تنقید سے مبرا نہیں اور نہ اب ان کی مقدس گائے کی حیثیت برقرار ہے ۔ عوامی حاکمیت اور سویلین بالادستی کیلئے یہ ایک نیک شگون ہے کہ اداروں پر ملکی قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کیلئے عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔
تین ماہ کے مختصر عرصے میں نہ صرف پی ڈی ایم کے بیانیے میں نکھار آیا ہے بلکہ اس کو عوامی پذیرائی بھی مل رہی ہے ۔ اب ناقدین کی یہ دلیل کہ پی ڈی ایم کے کچھ راہنما بعض حاضر سروس یا ریٹائرڈ شخصیات کا نام کیوں لے رہی اور انھیں بلاواسطہ یا بالواسطہ سیاست میں مداخلت اور پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے موردالزام کیوں ٹھہرا رہی ہے پس منظر میں چلی جارہی ہے جبکہ بحث اب پی ڈی ایم کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی اور اس کے ممکنہ اثرات پر ہورہی ہے ۔
تحریک کے اثرات کے ضمن میں ایک اہم بات تو یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کافی ریلکس اور اطمینان سے امور حکومت چلارہی تھی اپوزیشن کا رویہ نسبتا فرینڈلی تھا اور وہ محاذ آرائی سے اجتناب کررہی تھی ۔ مگر حکومت کی نالائقی ، نااہلی اور انتقامی سیاست نے انھیں دیوار سے لگا کر اپنے اور اپنے سرپرستوں کیلئے مستقل درد سر اور مصیبت مول لی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے جارحانہ انداز اختیار کئے جانے کے بعد اب حکومت بھی دفاعی پوزیشن پر آگئی ہے۔
حکومت پر دباؤ کے نتیجے میں اب کابینہ اجلاسوں میں گرما گرمی بڑھ رہی ۔ اگر 22 ستمبر2020 یعنی جب سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ وجود میں آنے کے بعدکابینہ اجلاسوں کی کاروائی کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک تو اجلاسوں میں زیادہ تر وقت پی ڈی ایم کی تحریک ڈسکس ہونے لگی ہے ۔ دوسرا جو باتیں پہلے دبے الفاظ اور دھیمے انداز میں ہوتی تھی اب زور وشور سے ہونے لگی اور بعض اوقات نوبت اراکین کے درمیان تلخ کلامی تک پہنچ جاتی ہے ۔
عمران خان کی بے موقع و محل لمبی لمبی بھاشنیں سننے کے ساتھ ساتھ اب کابینہ میں حکومتی پالیسیاں اور کارکردگی بھی زیر بحث آنا شروع ہو گئی ہے۔ اب سب اچھا ہے کی بجائے سیاسی تجربہ رکھنے والے کابینہ کے ارکان حکومتی فیصلوں اور اقدامات کو زیربحث لانے اور چیلنج کرنے لگے ھیں ۔ وزیراعظم کے کیچن کیبنٹ اکثر اس کے غیر منتخب ذاتی دوستوں پر مشتمل ہے۔ جو سطحی سوچ کے حامل اور سیاسی فہم و فراست سے عاری ھیں ۔ وہ اس مغالطے میں ہیں کہ شاید وہ عمر بھر کیلئے برسراقتدار آئے ہیں۔ اور امور حکومت چلانا عمران خان کی طرح صرف اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور ان پر کیچڑ اچھالنا ہے ۔
عمران خان کی غیر منتخب کچن کیبنٹ کی نسبت پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن اور دیگر جماعتوں سے لائے گئے ایلیکٹیبلز خراب طرز حکمرانی سے پریشان ہیں ۔ ایک تو ان کا عوام سے مسلسل رابطہ ہے اور دوسرا ان کو حالت کی سنگینی کا احساس ہوچکا ہے اور انھیں اندازہ ہورہا ہے کہ انھیں جلد یا بدیر اب دوبارہ عوام کی عدالت میں جانا ہے اسلئے ان کی پریشانی اور تشویش بجا ہے۔
پروپیگنڈہ سائنس کے بانی گوئبلز کا یہ فارمولا کہ جھوٹ اتنی تواتر سے بولو کہ سچ لگے پہلے کارگر تھا ۔ مگر سوشل میڈیا کی ایجاد سے اب جھوٹ جلد آشکارا ہو جاتا ہے ۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج دن رات ٹی وی سکرینوں پر مسلسل براجمان ہوکر جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں ۔ ایک ہی قسم کی کرپشن کی گردان ہے اور وہی بھونڈا اور گھسا پٹا بیانیہ ہے جس کو حکومتی ارکان اور عمران خان کی اے ٹیمز کی میگا کرپشن اسکینڈلز کی وجہ سے گرہن لگ گیا ہے ۔ چاہے وہ پیٹرولیم اور ایل این جی اسکینڈل ہو ، ادویات یا آٹا اور گندم یا چینی یا سیمنٹ اسکینڈل ہو قومی خزانے اورعوام کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا ۔
اس طرح بلین ٹریز پراجیکٹ یا ملم جبہ یا بی آر ٹی پشاور کی کرپشن کی غضب داستانیں الگ سے حکومت کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ احتساب کے نام پر انتقامی سیاست کرنے کی وجہ سے نیب ایک متنازعہ ادارہ بن چکا ہے ۔ روزانہ عدالتوں میں نامکمل چالان،گرفتاریوں میں قانونی تقاضے پوری نہ کرنے ، مقدمات کے قیام میں مسلمہ قانونی پہلو اور انسانی حقوق نظرانداز کرنے پر اس کی گوشمالی ہوتی ہے ۔ نئی ریاست مدینہ کے داعی اور سند یافتہ صادق اور امین کرپشن تو ختم نہ کرسکے مگر ملک میں منظم کرپشن مافیاز کو لوٹ مار کیلئے سازگار ماحول ضرور مہیا کیا۔
مہنگائی ، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کے ہاتھوں بدحال عوام کرپشن کی گردان سے اکتا اور بور ہوچکے ہیں ۔ یہ ترجمان جو چورن بیچ رہے ہیں عوام اس سے دور اور لاتعلق ہورہے ہیں کیونکہ نہ تو ان سے عوام کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی اور نہ کوئی آسانی یا آسائش آرہی ہے۔ نہ صرف عوام کو نالائقی ، نااہلی اور خراب طرز حکمرانی کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ ساتھ سہولت کاروں یعنی بعض ریاستی ادروں کی مٹی بھی پلید کررہے ہیں۔ اقتصادی اشاریے مسلسل نیچے جا رہے ہیں ۔ چاہے ترقی کا اشاریہ ہویا افراط زر کی شرح پاکستان دیگر جنوبی ایشیا کو تو چھوڑیئے ہمسایہ جنگ زدہ افغانستان سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔
♣