کیپیٹل ہل پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے ‘حملے‘ کے مناظر چین میں انٹرنیٹ پر چھائے ہوئے ہیں۔ جمعرات کی صبح چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک ٹویٹ کے ساتھ دو تصویریں شائع کی ہیں۔ ایک تصویر جولائی دو ہزار انیس میں ہانگ کانگ کی لیجس لیٹیو کونسل کے احاطے پر مظاہرین کے قبضے کی ہے، جب کہ دوسری تصویر بدھ کے روز واشنگٹن کیپیٹل ہل میں پیش آنے والے واقعے کی ہے، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کے کٹر حامیوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا ہے، سکیورٹی اہلکاروں سے ہاتھا پائی اور عمارت پر پتھراؤ کر رہے ہیں اور سیلفیاں لے رہے ہیں۔
گلوبل ٹائمز نے ٹویٹ کرتے ہوئے طنزیہ لکھا ہے کہ اسپیکر نینسی پلوسی نے ہانگ کانگ کے فسادات کو ‘ایک خوبصورت منظر‘ قرار دیا تھا۔ حالانکہ سن دو ہزار انیس میں ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز مظاہرے بڑی حد تک پرامن رہے تھے۔ اخبار نے لکھا ہے،”یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ وہ کیپیٹل ہل کے حالیہ واقعات کے بارے میں بھی کیا اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتی ہیں؟“۔
چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے یوتھ ونگ نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کیپیٹل ہل کے پرتشدد واقعے کو ایک ‘خوبصورت منظر‘ قرار دیا۔ جمعرات کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم وائیبو پر ”ٹرمپ حامیوں کا امریکی کیپیٹل پر دھاوا” ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا۔ اسے تقریباً دو سو تیس ملین لوگوں نے دیکھا۔ انہوں نے ہانگ کانگ کے مظاہرین کے لیے عالمی حمایت اور ٹرمپ حامیوں کے حملوں کی مذمت کو دوہرا معیار قرار دیا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر ٹرمپ کے حامی سینکڑوں مظاہرین کی طرف سے دھاوا بولے جانے کے افسوسناک واقعے کے ذمے دار خود موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہیں۔
جرمن چانسلر نے مزید کہا کہ جمہوریت توڑ پھوڑ کرنے اور بدامنی پھیلانے والوں سے بہت زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ مقامی وقت کے مطابق کل بدھ کی سپہ پہر کیپیٹل ہِل میں دھاوا اس وقت بولا گیا تھا جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔ اس قابل مذمت واقعے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بدامنی پھیلانے والے پچاس سے زائد مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔
عالمی رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کے حامیوں کے کیپٹل ہل پر دھاوا بولنے کو ذلت آمیز حرکت قرار دیتے ہوئے اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے۔ بیشتر عالمی رہنماوں نے تحمل سے کام لیتے ہوئے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔
صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ایوان پر دھاوا بولنے کے بعد اجلاس روک دیا گیا تھا تاہم کارروائی پھر سے شروع ہوگئی۔ اس سے قبل واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کی عمارت کو مظاہرین سے خالی کرانے کے بعد حکام نے اعلان کیا تھا کہ اب یہ عمارت بالکل محفوظ ہے۔
دریں اثنا دنیا بھر کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے انجام دی جانے والی پرتشدد کارروائیوں پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں نے انتخابی نتائج کو پلٹنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بدھ کے روز ایوان پر دھاوا بول دیا تھا۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی سے آنے والی تصاویر جمہوریت کے لیے آہانت آمیز ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، ”جمہوریت کے دشمن واشنگٹن ڈی سی کی ان ناقابل فہم تصاویر پر خوش ہوں گے۔ پہلے رائش ٹاگ (جرمن پارلیمان) کے زینوں پر اور اب کیپیٹل ہل میں، اشتعال انگیز الفاظ پرتشدد کارروائی میں بدل گئے۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو بالآخر امریکی ووٹرز کا فیصلہ تسلیم کر لینا چاہیے اور جمہوریت کو اپنے پیروں تلے روندنا بند کر دینا چاہیے”۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کیپیٹل ہل کے آس پاس کے مناظر کو ذلت آمیز قرار دیتے ہوئے پرامن اور منظم طریقے سے اقتدار کی منتقلی پر زور دیا۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ”دنیا بھر میں امریکا جمہوری موقف کے لیے جانا جاتا ہے اس لیے یہ بہت اہم ہے کہ اقتدار کی منتقلی پر امن اور منظم طریقے سے ہو”۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں امریکی جمہوریت کے مضبوط ہونے میں پورا یقین ہے۔ ٹویٹر پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں میکروں نے کہا، ”واشنگٹن ڈی سی میں جو کچھ بھی ہوا وہ امریکیت نہیں ہے”۔
یورپی یونین کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن کے ساتھ ساتھ بعض دیگر رہنماؤں نے بھی پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے پرامن اقتدار کی منتقلی کی بات کہی ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے تشدد سے ان کا ملک شدیدپریشانی اور غم میں مبتلا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”تشدد عوام کی مرضی پر غالب آنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں جمہوریت برقرار رہنی چاہیے، اور یہی ہوگا بھی”۔
امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کی اہلیہ لارا بش نے کیپیٹل ہل کے مناظر پر گہرے صدے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے یہ حرکتیں کیں، ”ان کے جذبات کو باطل اور جھوٹی امیدوں سے اشتعال دلایا گیا”۔
بل کلنٹن کا کہنا تھا کہ اس حملے کو ٹرمپ کی ”زہریلی سیاست” نے ہوا دی۔ ”ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قابل کارکنان، جس میں کانگریس کے بہت سارے ارکین بھی شامل ہیں، نے انتخابات میں اپنی شکست کے نتائج کو پلٹنے کے لیے ماچس کی تیلی میں آگ لگائی تھی۔”
سابق صدر بارک اوباما نے تشدد بھڑکانے کے لیے صدر ٹرمپ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا، ”ہماری قوم کے لیے یہ بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔” انہوں نے کہا کہ ریپبلکن کے پاس دو راستے ہیں، ”یا تو وہ اسی راستے پر بڑھتے رہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ کو ہوا دیتے رہیں یا پھر حقیقت کو تسلیم کریں اور آگ کو بجھانے کی طرف پہلا قدم اٹھائیں”۔
dw.com/urdu
♠