بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی کووڈ ویکسین مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش نے انڈیا سے آسٹرازینکا برانڈ ویکسین کی تیس لاکھ ڈوزز خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جبکہ پاکستانی حکومت ایسے تمام عمل سے لاتعلق نظر آتی ہے۔ ویکیسن کیسے حاصل کی جائے، کہاں سے حاصل کی جائے۔ پوری دنیا کے سربراہان اپنے عوام کو کووڈ ویکسین کی دستیابی کے حوالے سے اپنی اپنی عوام کو حالات سے آگاہ کررہے ہیں جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم خاموش ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست جس کے پاس پی آئی اے کے طیارے کی لیز کے پیسے نہ ہوں وہ ویکیسن کے لیے پیسوں کو انتظام کہاں سے کرے ۔پاکستانی ریاست نے ویکیسن کے حصول کا معاملہ نجی کمپنیوں پر چھوڑ دیا ہے اور اپنےآپ کو اس درد سر سے بچا لیا ہے۔
ہفتے کے دن نئی دہلی کے ایک سرکاری ہسپتال میں سب سے پہلے ایک ہیلتھ ورکر کو ویکیسن لگائی گئی۔اس مہم کے تحت بھارت کی ایک اعشاریہ تین بلین آبادی میں سے تین سو ملین افراد کو وسط جولائی تک یہ ویکیسن لگائی جائے گی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے نشریاتی خطاب میں اس مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک نے ابھی تک اتنی بڑی مہم شروع نہیں کی ہے۔ بھارت اس عالمی وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے اور عالمی سطح پر یومیہ سات لاکھ سے زائد افراد اس نئی قسم سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس عالمی وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا کے طبی حکام نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں کووڈ کی نئی قسم مزید تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
یادر ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی ہلاکتوں کی تعداد دو ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد دس کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بیس لاکھ انیس ہزار سے زائد ہے۔ دسمبر سن 2019 میں چینی شہر ووہان سے شروع ہونے والی یہ وبا اب 223 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لی چکی ہے۔
اس صورتحال میں عالمی ادارہ صحت نے اپیل کی ہے کہ کووڈ ویکسین لگانے کے عمل میں تیزی لائی جائے تاہم ویکیسن بنانے والی امریکی کمپنی فائزر نے کہا ہے کہ جنوری میں ویکسین کی سپلائی میں سستی پیدا ہو گی۔
آئندہ کچھ ماہ کے دوران یورپی یونین رکن ممالک کو بائیو ٹیک فائزر کی کووڈ ویکسین کے کم یونٹس فراہم کیے جائیں گے۔ اس کمپنی کے مطابق وہ اپنی پروڈکشن میں تیزی لانے کی کوشش میں ہے تاکہ ویکسین کی عالمی طلب کو پورا کیا جا سکے۔طے شدہ ویکیسن یونٹس کی تعداد میں کمی پر متعدد یورپی ممالک نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس ‘ناقابل قبول‘ قرار دے دیا ہے۔ اس ویکسین کی ڈیلیوری میں جرمنی میں بھی ایک ماہ کے لیے تاخیر ہو جائے گی۔ برلن حکومت نے یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ ویکسین ڈیلیوری کے حوالے سے ضابطے طے کیے جائیں۔
dw.com/urdu & Web desk