زیادہ عمر کا انسان زیادہ عقل مندہوتا ہے

qaziفرحت قاضی

عقل کُل کا زمانہ لد گیایہ اجتماعی عقل کا دور ہے
ازمنہ قدیم میں ادب و آداب اور عمر کے تفاوت سے اظہار رائے پر پابندی کا کام بھی لیا گیا

ایک بچہ
بچپن سے لڑکپن،جوانی اور پھر بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچتا ہے تو اس کے مشاہدات اور تجربات میں ساتھ ساتھ اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے بڑھاپے میں قدم رکھتے رکھتے وہ زندگی کے کئی ماہ وسال،گرم وسرد،اونچ نیچ، حادثات اور واقعات دیکھ چکا ہوتا ہے یہ سب حالات اس کی سوجھ بوجھ ،معاملہ فہمی اور عقل و شعور میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اب اس کی ملکیت اور ورثہ بن چکے ہیں۔

ایک سفید ریش عمر کی اس دہلیز تک پہنچتا ہے تو اسے اپنے محلے اور گاؤں کے ایک ایک فرد اور خاندان کی جانکاری ہوچکی ہوتی ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کس کی کیا حیثیت اور مقام ہے کس بندے سے فائدہ اور کس انسان سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔

یہ حالات اور سوچ اسے رفتہ رفتہ جہاندیدہ،معتدل مزاج،صلح جو اورمعاملہ فہم بنادیتے ہیں اور وہ زبان کے غیر ضروری استعمال سے اجتناب برتنے لگتا ہے وہ حمایت اور مخالفت کے نتائج سے بخوبی واقف ہوچکا ہوتا ہے اس لئے خواہ مخواہ خطرہ مول نہیں لیتا ہے اور ایسے شخص کے تو منہ پر کیا پس پشت بھی بولنے کی جرائت نہیں کرتا ہے جس سے کئی افراد اور خود اسے بھی زندگی میں نقصان پہنچ چکا ہو۔

بوڑھاشخص زندگی کے اتار چڑھاؤ جان چکا ہوتا ہے اس کو پتے پتے کا حال معلوم ہوتا ہے اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے کس نے اپنی زندگی میں کیا کیا ہے مگر اس حقیقت کے باوجود وہ جرگہ میں خاموش بیٹھ کر سنتا ہے اور زبان پر فقط وہ الفاظ لاتا ہے جن سے خفگی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو وہ ہربات ناپ تول کرکرتا ہے جذباتی اور آپے سے باہر نہیں ہوتا ہے اس قابلیت،خوبیوں اور خاصیتوں کے باعث بوڑھوں کے حوالے سے جب یہ بولا جاتا ہے کہ وہ نوجوانوں سے زیادہ معاملہ فہم اور عقل مند ہوتے ہیں تو یہ جھوٹ اور مبالغہ نہیں ہوتا ہے۔

ایک بوڑھے کے بچے( یا نواسے )کے پر نکل آئے ہیں اور وہ پرواز کے لئے پر تول رہا ہے دوڑتا ہے گرتا اور زخمی ہوتا ہے تو مرہم پٹی کرتا ہے اس کے عقل وشعور میں اضافے کا عمل جاری ہے گو کہ بچپن سے لڑکپن اور اب جوانی میں قدم رکھ چکا ہے تاہم اس کے مشاہدات اور تجربات ابھی ناپختہ اور خام ہیں۔

بلاشبہ وہ گاؤں کے خاندانوں کی مالی حیثیت ،با اثر شخصیات کے اثر و رسوخ اور اختیارات سے واقف ہوچکا ہے یہ بھی جانتا ہے کہ ایسے افراد کی مخالفت کرنے پر اسے کس نوعیت کے خطرات،عتاب اور عذاب سے دوچار اور نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے اس کے باپ اور دادا کو اس کی قابلیت اور اہلیت پر شک نہیں ہے مگر اس تمام حقیقت کے باوجود اس سے یہ خطرہ رہتا ہے کہ جوانی کے جوش میں اس کی زبان سے کچھ بھی نکل سکتا ہے ۔

ویسے بھی یہ روزمرہ اور عام مشاہدہ ہے کہ نوجوان پر جذبات جلدغالب آجاتے ہیں وہ بے باک اور منہ پھٹ ہوتا ہے کبھی کبھار توآگ بگولا ہوجاتا ہے جسمانی کمزوری بھی آڑے نہیں آتی ہے خطرات مول لینے کی ہمت بھی رکھتا ہے چنانچہ ان خصوصیات کے باعث اس کی مداخلت سے ایک معاملہ سلجھنے سے زیادہ الجھ سکتا ہے۔

آج سے کئی برس قبل ان اسباب کے مدنظر اس کے ہاتھ پاؤں،منہ ،زبان اور سوچ و فکر کو باندھ کر رکھنے اور لگام دینے کے لئے اقدامات وقت کی ضرورت تھے تاکہ گھر،گلی اور گاؤں میں ہی نہیں جرگہ میں بات چیت کے دوران وہ بلاشبہ موجود تو رہے مگر اسے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی حاصل نہ ہو چنانچہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چھوٹے اور بڑے کے مابین ادب و آداب کو آڑے لایا گیا عمر رسیدہ اور سفید ریش انسان کے ساتھ بات چیت کے دوران ادب اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جانے لگا اس میں کوئی برائی بھی نہیں تھی مگراس سے عمر رسیدہ اور بڑی عمر کے ساتھ زیادہ عقل مند ہونے کا تصور بھی پید ا ہوا اور یہ پھر گاؤں میں عام بھی ہو گیا نوجوان اور بوڑھے کے مابین سوجھ بوجھ،معاملہ فہمی،جذباتیت اور سرد مزاجی کے فرق اور امتیاز سے بھی اس تصور کوو قتاً فوقتاً تقویت ملتی رہی ۔

بہر کیف، یہ زیادہ عمر کے ساتھ زیادہ عقل مند کے تصور کا ایک پہلو ہے اسے محض ایک پہلو اور زاویہ سے دیکھا اور لیا گیا یہاں نوجوان اور بوڑھے کے مابین پائے جانے والے فرق کو ایک مرتبہ پھر دہراتے ہیں۔

نوجوان کو اپنی زندگی میں ابھی کم حادثات، سانحات اورواقعات سے واسطہ پڑا ہوتا ہے اسے گاؤں کی شخصیات اور ان کے اختیارات کے حوالے سے کم جانکاری ہوتی ہے چنانچہ اس حوالے سے اس کے تجربات ا بھی خام ہوتے ہیں اس لئے اس کی معاملہ فہمی مشکوک اور رائے میں وزن بھی نہیں ہوتا ہے علاوہ ازیں وہ بے باک اور منہ پھٹ ہوتا ہے اسے اپنی طاقت کا احساس اور گھمنڈ ہوتا ہے اور وہ دور اندیش بھی نہیں ہوتا ہے یہ سب ایسی خصوصیات ہیں جن میں کوئی مثبت پہلو نظر نہیں آتا ہے اوروہ ہر ہر حوالے سے نااہل اور ناکام لگتا ہے لہٰذا نوجوانوں پر پوری پوری پابندی لگنا چاہئے۔

بوڑھا نحیف اور کمزور ہے اس کے پاس ذاتی تجربات ہیں زندگی کے کئی شب وروز اور ماہ و سال دیکھ چکا ہے نفع و نقصان جانتا ہے اس کے سیخ پا اور جذباتی ہونے کے امکانات نسبتاً کم ہیں وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا اور ناپ تول کر بات کرتا ہے یہ تمام افعال اس کے ہر پہلو کو مثبت ثابت کرتے ہیں ان حالات کے پیش نظر باپ اور بوڑھے کو گھر، محلے ، گاؤں اور جرگہ میں اظہا ررائے کی پوری پوری آزادی ہونی چاہئے ۔

مگریہاں ایک اہم اور انتہائی اہم چیز اور پہلو تشنہ رہ جاتا ہے بلاشبہ،بوڑھے اور سفید ریش کی معلومات اور تجربات زیادہ ہوتے ہیں اس کے سامنے غالب کی مانند دنیا بازیچہ اطفال ہوتی ہے وہ ایک جرگہ میں جھوٹ کو سچ سے الگ کرسکتا ہے مگر جسمانی کمزوری اور سالہا سال کے واقعات اور تجربات نے اسے صلح جو اور مصلحت کوش بھی بنادیاہوتاہے اس کی نگاہوں کے سامنے ایک عمل کے نتائج فوراً گھوم جاتے ہیں چنانچہ اس کی کوشش رہتی ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی صحیح سلامت رہے اور بالفرض ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر کوئی ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جس میں سلامتی ہی سلامتی ہو۔

اس کے برعکس جسمانی کم زوری نوجوان کے آڑے نہیں آتی ہے وہ اپنا آپ منوانا چاہتا ہے مصلحت کوش بھی نہیں ہے اس لئے کبھی کبھار سہی مگر اس کی زبان پر سچ آجاتا ہے یا آسکتا ہے اور وہ نتائج سے بے پروا ایسی کوئی بات کہ جاتا ہے جو وہاں پر موجود خان خوانین، بڑے بوڑھوں اور با اثر شخصیات کے مفادات سے ٹکراتی ہے جو ان کو ناگوار گزر سکتی ہے نیز بازی الٹ بھی سکتی ہے چنانچہ ایسے موقع پر یہ عمل نوجوان کو بات چیت اور اظہار رائے سے روکتاہی نہیں بلکہ سچائی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بھی مترادف بن جاتی ہے

علاوہ ازیں، ایک سفید ریش شخص بڑھاپے میں نظر اور جسمانی کم زوری کے باعث گھر،حجرے اور مسجد تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے رفتہ رفتہ خوف اور دہشت اس کے ذہن و قلب پر غالب آجاتے ہیں وہ خطرات مول لینے سے کترانے لگتا ہے اور پھر یہ خوف اور ڈر اپنے بچوں اور نواسوں کو منتقل کرتا رہتا ہے جبکہ دہشت اور خوف کا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو آگے بڑھنے نہیں دیتا ہے

بوڑھے باپ یا دادااور اس کے جوان بیٹے کے درمیان بیس اور اس سے زائد کا عرصہ بھی حائل ہوتا ہے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں اس کے زمانے میں زندگی سست رفتار تھی تانگہ اور بیل گاڑی یا سائیکل سواری کے لئے استعمال کئے جاتے تھے پورے گاؤں میں تعلیمی ادارہ نہیں ہوتا تھا یا ایک پرائمری سکول ہوا کرتا تھا جس میں بچے اور بچیاں پڑھتے تھے ذرائع معاش محدود ہونے کے باعث کھیت مزدور کا اہل خانہ سمیت جاگیردار کے سامنے سر نیوا رہتا تھا

بنظر غائر دیکھا اور سوچا جائے تو بڑی عمر کے ساتھ زیادہ عقل اور اس نوعیت کے دیگر تصورات سماج کو مدت دراز تک جامد اور جوں کا توں رکھنے میں کردار ادا کرتے رہے اس وقت زندگی اور تبدیلی کی رفتار انتہائی سست رہتی تھی جبکہ اب زندگی کے ہر شعبہ میں آئے روز نت نئے تجربات،ایجادات، تجاویز، نظریات اور فلسفے جنم لے رہے ہیں تیزی سے تبدیلیاں نمودار ہورہی ہیں آج جو نیا ہے کل وہ پرانا لگتا ہے
ایک یونانی فلسفی کا کہنا ہے

’’ہر روز ایک نیا سورج نکلتا ہے‘‘

لہٰذا ان حالات میں تو بڑی عمر کے ساتھ زیادہ عقل مند ہونے کا خیال بالکل نہیں جچتا ہے کل کا بوڑھا آج کے بچے سے اس لئے پیچھے رہ گیا ہے کہ وہ بے چارا یہ بھی نہیں جانتا ہے کہ کمپیوٹر لٹریسی کس بلا کا نام ہے گو کہ جامد معاشروں میں تاحال عمر رسیدہ اور نوجوان کا موازنہ کرتے ہوئے یہ پراناتصور بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے اور بوڑھوں اور نوجوانوں کے مابین ایک وسیع خلیج حائل ہے تاہم شہروں میں بیٹا باپ اور دادا اور باپ اور دادا بیٹے سے وہ کچھ سیکھ رہے ہیں جو یہ پہلے نہیں جانتے تھے

قدیم پشتون اس حقیقت سے بہت پہلے واقف تھا جو کہ پشتو کے اس مشہور قول اور کہاوت سے ظاہر ہے

’’تمہار ا جوتا بیٹے کے پاؤں میں فٹ آجاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ ایک دوست بن کر بات چیت کیا کرو‘‘
لہٰذا باپ( اور دادا) کو بیٹے (اور نواسے )کے مابین عمر کے تفاوت اور استاد اور شاگرد کو علم اور معلومات کے امتیاز کے باوجود ایک دوسرے کا ساتھی بن کر سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔

Tags:

Comments are closed.