ایمل خٹک
آجکل ملک میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں زیر سماعت پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کیس پر زور وشور سے بحث جاری ہے۔ یہ کیس پی ٹی آئی کے خلاف کسی اپوزیشن راہنما نے نہیں بلکہ عمران خان کے قریبی ساتھی اور پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کیا ہے ۔ ان کے قریبی ذرائع کےمطابق اکبر ایس بابر کو عرصے سے دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ اس طرح پی ٹی آئی ان کے خلاف مختلف قسم کی تین مقدمات قایم کرچکی ہے اور دو مقدمات میں وہ بری ہوچکے ہیں جبکہ ایک واپس لے لیا گیا۔ مگر تمام تر دباؤ کے باوجود وہ اس کیس کو ثابت قدمی سے لڑ رہا ہے ۔
وہ دستیاب شواہد اور ٹھوس دلائل کی بنیاد پر پی ٹی آئی فارن فنڈنگ میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے تین نکات اٹھا رہا ہے۔ ایک باہر سے زیادہ تر فنڈنگ ہنڈی کے ذریعے آئی ہے اور منی لانڈرنگ بھی ہوئی ہے دوسرا استعمال فنڈز کی غیر شفافیت اور خردبرد کا خدشہ ہے اور تیسرا بعض مشکوک ذرائع سے چندوں کا حصول ہے جس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سسٹم بھی شفاف نہیں ۔ مگر پی ٹی آئی کے بانی رکن نے گھر کا بیدی بن کر عمران کی لنکا ڈھانے کیلئے جو کیس کیا ہے ۔ وہ کئی حوالوں سے اہم ہے اور اگر الیکشن کمیشن نے اس کیس کو ایک سٹڈی کیس کے طور پر لیا اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا تو اس کے دور رس اثرات ہونگے ۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن کی ساکھ کچھ اچھی نہیں اور اسکی غیرجانبداری ہمیشہ مشکوک رہی ہے اسلئے کیس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ مگر پی ٹی آئی کی جانب سے کچھ بے قاعدگیاں سامنے آئی ہے مثلا درجن بھر سے زائد بنک اکاؤنٹوں کو الیکشن کمیشن کو دئیے گئے اثاثوں میں ذکر نہیں کرنا اور پہلے کیس کو رکوانے یا خارج کرنے کی کوشش اور پھر اس کو طوالت دینے کیلئے تاخیری حربے استعمال کرنا وغیرہ ۔ اب اس کیس کا جو بھی فیصلہ آتا ہے مگر جس طرح یہ ایشیو عوامی سطح پر زیر بحث ہے اور قومی مباحثے کا حصہ بنا ہے اس سے کیس کے بہت سے پوشیدہ پہلو عیاں اور نمایاں ہوئے ۔ اور عوام کے ذھنوں میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں ۔
کیس میں اپوزیشن کی غیر معمولی دلچسپی کے پیش نظر پی ٹی آئی نے بھی جوابی حملہ کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی وغیرہ کی فنڈنگ کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے ہیں ۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق اگر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہوا تو پارٹی سے زیادہ خود عمران خان کیلئے انتہائی ناخوشگوار اور مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ۔ کیس کے قانونی اور سیاسی حوالے سے اہمیت ایک طرف مگر عمران خان کیلئے فنڈ ریزنگ کی اہمیت کی پیش نظر اس کا اخلاقی پہلو بھی بہت اہم ہے۔ پارٹی کیلئے فنڈز جمع کرنے کے علاوہ عمران خان شوکت خانم کینسر میموریل اسپتال کیلئے بھی چندے جمع کرنے کیلئے بھرپور مہم چلاتا ہے۔ استعمال فنڈز میں غیر شفافیت یا خرد برد کا تھوڑا سا شائبہ بھی ان کیلئے بہت مضرثابت ہوسکتا ہے ۔
پی ٹی آئی کے اس بیان کے بعد کہ ہوسکتا ہے اس کے بیرون ملک فنڈز ریزنگ پر مامور بعض ایجنٹوں نے کچھ مشکوک ذرائع سے فنڈز لیے ہوں مگر اس کیلئے پارٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا سے ان کے سیاسی مخالفین کے شکوک شبھات کو تقویت ملی اور وہ اسے اعترافی بیان قرار دے رہے ہیں ۔ عمران خان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نوجوانوں کو چھوڑ کر عمومی رائے عامہ تبدیل ہورہا ہے ۔کیس کے حوالے سے جو شواہد سامنے آرہے ہیں اب آزاد مبصرین اور ملک کے سنجیدہ حلقوں نے بھی اس کیس کو سنجیدہ لینا شروع کیا ہے ۔
پی ٹی ائی کا کیس تقریبا سات سال سے لٹک رہا ہے ۔ اکبر ایس بابر ، عمران خان پر کیس کو لٹکانے کیلئے تاخیری حربے استعمال کرنے اور الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کاالزام لگاتے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے کیس میں دلچسپی لینے سے صورتحال یکسر تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے اس کیس کو جارحانہ انداز میں اٹھانے کی وجہ سے اب پی ٹی آئی دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے۔ پی ڈی ایم الیکشن کمیشن سے کیس کو جلد سے جلد اور میرٹ کی بنیاد پر نمٹانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ پی ڈی ایم نے اس سلسلے میں، اسلام آباد میں، الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ۔
عمران خان یا اس کے چاہنے والے تسلیم کریں یا نہ ، مگر الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کیس سے ان کی شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ کیس کے محرک کے دعوے کے مطابق عمران خان کے ناک تلے پارٹی فنڈز میں سنگین بے قاعدگیاں ہوئی ہیں ۔ عمران خان کی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے پہلے جو باتیں دبے الفاظ میں ہوتی تھی یا دب جاتی تھی وہ اب کھلے عام ہورہی ہے ۔ اور عمران خان کی پارسائی کا بت فاش فاش ہورہا ہے ۔ اس صورتحال کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود عمران خان پر عائد ہوتی جو ہمیشہ اپنے مخالفین کو غلیظ القابات سے پکارتا ہے اور ان پر مسلسل رکیک حملے کرتا ہے ۔
شیشے کے محل میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنا تو آسان ہوتا ہے مگر جب دوسری طرف سے ایک پتھر بھی آتا ہے تو شیشے کا محل بکھر جاتا ہے ۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر تہذیب اور شائستگی بھی کچھ چیز ہوتی ہے ۔ قومی راہنماوں کو ڈاکو اور چور یا دیگر برے القابات سے پکارنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب دوسری طرف سے بھی اس لہجے اور انداز سے جواب دیا جانے لگا جو قابل مذمت ، ایک غلط اور ناپسندیدہ رحجان ہے۔ بدقسمتی سے ملکی سیاست میں الزامات اور در الزامات کا سلسلہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔