بلوچ قوم پرست رہنما کریمہ بلوچ کی تدفین ان کے آبائی علاقے تمپ میں کر دی گئی۔ بلوچ سیاسی کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے جنازے میں شامل ہونے سے روکا گیا، کچھ اطلاعات کے مطابق وہاں کرفیو کا نفاذ کیا گیا تھا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کریمہ بلوچ کے جنازے کے موقع پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائی گئی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ بلوچ قوم پرست رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کریمہ بلوچ کے جنازے میں شرکت کرنے کے خواہشمند بلوچ سیاسی کارکنوں کو تربت سے آگے جانے نہیں دیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینیڈا سے پاکستان پہنچنے پر کریمہ بلوچ کی لاش کا تابوت فوری طور پر اہل خانہ کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے کئی افراد نے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ پشتون افراد کے حقوق کی سرگرم تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے ٹوئٹر پر کہا،” یہ بہت حیران کن ہے کہ کریمہ بلوچ کی لاش کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایسے رویے سے علیحدگی کے جذبات اور قوم پرستی مزید بڑھے گی۔ کیا اس طرح سے زخموں پر نمک چھڑک کر بلوچ مذاحمت کاروں سے نمٹنا چاہیے؟‘‘۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور پاکستانی فوج کے ناقد افراسیاب خٹک نے ایک ٹویٹ میں کہا، ” کریمہ بلوچ کے آبائی علاقے تمپ میں کرفیو نافذ کرنے ( اکبر بگٹی کے جنازے پر بھی ایسا ہی کیا گیا تھا) کا اقدام نو آبادیاتی سوچ کا عکاس ہے، وہ لوگ جو افغانستان میں دہشت گردوں کے ساتھ سمجھوتے کا اصرار کرتے ہیں بلوچ قوم پرستوں کی لاشوں کا احترام کرنے پر تیار نہیں۔ ایک سیاسی معاملے کا عسکری حل نہیں ہو سکتا ہے‘‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا، ”جب سے اکبر بگٹی کی لاش کی بے حرمتی کی گئی تب سے بلوچستان بد امنی کا شکار ہے۔ بد امنی اور مزاحمت کاری اب تک ختم نہیں ہوئی۔ کریمہ بلوچ کی لاش کی بے حرمتی کا اثر دیکھا جائے گا۔ زخموں کا مرہم کیا جائے پیشتر اس کے کہ تاخیر ہو جائے‘‘۔
کینیڈا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والی سینتیس سالہ بلوچ سیاسی رہنما کریمہ بلوچ کی لاش ٹورانٹو شہرکے ڈاؤن ٹاؤن کے ایک پانی کے تالاب سے ملی تھی۔ انہیں سن 2016 میں کینیڈین حکومت نے سیاسی پناہ دی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ مرحومہ بلوچ رہنما صوبہ بلوچستان میں خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر ناقدانہ آواز بلند کرتی رہتی تھیں۔
یاد رہے کہ چند ماہ پہلے سویڈن میں بلوچ صحافی ساجد حسین کی بھی پراسرار حالات میں موت واقع ہوئی تھی اور مقامی پولیس کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔ ساجد حسین اور کریمہ بلوچ کی موت میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس سےپہلے سال 2008 میں ایک بلوچ لکھاری عارف بارکزئی بھی ناروے کی ایک بلڈنگ سے کود کر خودکشی کرچکے ہیں کچھ کے نزدیک یہ ایک قتل تھا۔ یاد رہے کہ عارف بارکزئی پاکستان کے ریاستی اداروں کے زیر عتاب تھے۔
dw.com & net news
♥