محمد زبیر
پی ٹی ایم ایک ایسی طاقت ہے جو اس فاشسٹ، ظالم اور جابر ریاست کے اصلی مالکان یعنی پنجابی جرنیلوں کے ذہنوں پر سوار ہے جس سے یہ انتہائی خوفزدہ ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ جو ریاستی مشین پی ڈی ایم کے بڑے بڑے جلسوں سے خائف نہیں، پی ٹی ایم جیسی نسبتاً چھوٹی تحریک کے جلسوں سے انکی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پشاور ویلی (پشاور، مردان، صوابی، نوشہرہ اور پشاور کے آس پاس کے مضافاتی علاقے) اس فاشسٹ ریاست کا پشتونوں کیخلاف آخری مورچہ ہے۔ ریاست نہ مانتے ہوئے بھی پی ٹی ایم کو شمالی اور جنوبی پشتونخواہ یعنی پشتونخواہ کے مضافات میں تو برداشت کرنے کو تیار ہے لیکن وسطی پشتونخواہ کے دل یعنی پشاور ویلی میں کسی طور پر بھی پی ٹی ایم کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اس ریاست کی فاشسٹ فوج اور مرکزی نوکرشاہی میں بھرتی پشتون افسران کا نوے فیصد سے زائد حصہ پشاور ویلی کے صرف تین ڈسٹرکٹ یعنی پشاور، مردان اور نوشہرہ سے آتا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پشتون افسران کا یہ طبقہ مرکزی سول اور فوجی نوکر شاہی بنجابی افسران پر مشتمل حصے کے زیر اثر کام کرتا ہے اور اقلیتی اقوام کیخلاف ہونے والے ریاستی مظالم میں پنجابی افسران کے فرمانبردار نوکر کے طور پر انکے احکام بجا لانے سے انکا مفاد وابستہ ہے۔ نتیجتاً جس کھیت سے اس فاشسٹ ریاست کو اس طبقے کی فصل ملتی ہے وہاں اسکے لیے پی ٹی ایم کی موجودگی کو زہرِ قاتل سمجھنے کیلیے سائنسدان ہونا ضروری نہیں۔ اس لیے پی ٹی ایم کے بیانیے کو پشاور ویلی کے دلوں کی آواز بننے کو فوج اور مرکزی نوکر شاہی نہ صرف پشتونوں کو کچلنے والی ریاستی مشین کے پرزوں سے محرومی کا ممکنہ سب سمجھتی ہے بلکہ اسی طبقے کومستقبل میں سول اور فوجی نوکر شاہی کے اندر ممکنہ بغاوت کی وجہ بھی سمجھتی ہے۔
اب یہ پی ٹی ایم کیلیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح اپنا پیغام پشاور ویلی میں لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہے اور انکی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ مدِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کے ہاتھوں شمالی، جنوبی اور وسطی پشتونخواہ کا ایک ایک کونا متاثر ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ علاقے بہ نسبت دوسرے علاقوں کے زیادہ متاثر ہونے ہیں۔
شمالی پشتونخواہ کے جو علاقے دہشت گردی اور فوجی مظالم سے بلاواسطہ یا کم متاثر ہوئے ہیں ان میں پشاور ویلی شامل ہے۔ جو علاقے دہشت گردی اور فوجی مظالم کا ڈائریکٹ نشانہ بنے ہیں وہاں کے لوگوں کیلیے پی ٹی ایم کا بیانیہ سمجھنا آسان ہے لیکن اس کے مقابلے میں اِن ڈائریکٹ نشانہ بننے والے علاقوں کیلیے پی ٹی ایم کے بیانیے کو سمجھنا اتنا آسان ہے اور اسکی ظاہر وجہ ذاتی تجربوں میں فرق ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ شمالی پشتونخواہ میں پشتونوں کی اشرافیہ کا ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ زیادہ گہرا ہے۔
اس لیے یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ، ایک ایسا نعرہ ہے جو پاکستانی ریاست کی پچھلی چار دہائیوں پرمشتمل خارجہ پالیسی کا نچوڑ ہے جسے اس نعرے کی صورت میں کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ اس پالیسی کا پھل پنجاب کے فوجی جرنیلوں اور سیاسی اشرافیہ نے کھایا ہے اور اسکی قیمت پشتونوں کے خون، اور انکے سماجی اور معاشی قتل کے صورت میں ادا کی گئی ہے۔
اس نعرے سے فوجی جرنیلوں کو اس لیے تکلیف نہیں پہنچتی کہ خدانخواستہ یہ جھوٹ پر مبنی ہے یا یہ کہ انہوں نے اس پالیسی کو ترک کرکے توبہ کرلی ہے اور وہ پی ٹی ایم سے صرف اس لیے خائف ہیں کہ اس نعرے کے ذریعے انہیں اپنے ماضی کے گناہوں کی یاد دہانی کراکر ان پر طعنہ زن ہیں۔ بلکہ انکی یہ پالیسی اب بھی جاری ہے اور انکا مستقبل میں بھی اس پالیسی کو جاری رکھنے کا پورا ارادہ ہے۔ اب بھی ایک طرف وزیرستان میں دہشت گردوں کی نئی صف بندیاں جاری ہیں تاکہ فوجی جرنیل افغانستان کو کمزور رکھنے کے اپنے مضموم پالیسیوں کو جاری و ساری رکھ سکیں اور دوسری طرف پی ٹی ایم کے ساتھیوں کو بھی مسلسل ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنائے رکھا جارہا ہے۔
اس لیے ان کو اس نعرے سے تکلیف پہنچنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نعرے کا بار بار بلند ہونا انکے جاری و ساری منصوبوں سے مسلسل پردہ اٹھانے کا گناہ ہے۔ یعنی فوجی جرنیل دہشت گردی جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں، پشتونوں کے خون کی قیمت پر مالی فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ اس پر اعتراض بھی نہ کریں! کیا کہنے!۔ چونکہ ریاست اور حکومت فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں ہے اس لیے یہاں تک کہنا بیجا نہ ہوگا کہ یہ ریاست خود بھی دہشت گرد ہے اور دہشت گردوں کی مدد گار ہے۔
جب پی ٹی ایم کے سٹیج سے یہ نعرہ لگتا ہے تو اسکا مطلب صرف اور صرف ایک روزِ روشن کی طرح عیاں حقیقت کا اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوتااور ساتھ ہی ساتھ اس دہشت گرد ریاست کے دہشت گرد جرنیلوں کو یہ بتانا بھی مقصود ہوتا ہے تم اب بھی دہشت گردی کو استعمال کرنے سے باز نہیں آئے، اور تم اب بھی پشتونوں کو دہشت گردی کی سولی پر چڑ ھاکر مالی فوائد کے حصول کے اپنے ناپاک منصوبوں پر کاربند ہو اور یہ کہ ہم اگر تمہارا دہشت گردی سے ہاتھ نہیں روک سکتے تو کم از کم ہم تمہیں دہشت گرد کہتے ضرور رہیں گے۔ ہم صر صر کو صباء، زخم کو پھول اور ظلمت کو ضیاء نہیں کہہ سکتے۔
پاکستان کے بچے بچے کو یہ معلوم ہے کہ یہ ریاست اور اس کے جرنیل دہشت گرد ہیں لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی یا کسی دوسری تنظیم میں یہ سیاسی اور اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اس حقیقت کا اظہار کرسکے۔ اگر ان میں اتنی جرات ہوتی تو آج یہ ریاست اور اسکے جرنیل دہشت گرد نہ ہوتے۔ یہ امتیاز صرف اور صرف پی ٹی ایم کو حاصل ہے۔ یہ سیاسی اور اخلاقی جرات صرف اور صرف پی ٹی ایم کا طرح امتیاز ہے۔
پی ٹی ایم کے پچھلے کئی جلسوں میں یہ نعرہ کم از کم سٹیج سے نہ لگا نے کا نتیجہ بھی دیکھ لیا۔ کیا ریاستی اداروں پر اس رعایت کا کوئی فائدہ ہوا؟ کیا اس کے رویے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی؟ بالکل بھی نہیں؟ بلکہ اس دوران ریاستی ادارے پی ٹی ایم کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بھی بناتے رہے اور وزیرستان میں دہشت گردوں کی نئی صف بندیوں میں بھی مصروفِ عمل رہے۔
لہٰذا پی ٹی ایم کے پشاور کے جلسے میں سٹیج سے منظور پشتین، محسن داوڑ اور دیگر ساتھیوں کی طرف سے اس نعرے کا لگنا نہایت خوش آئند ہے۔ محسن داوڑ نے جرنل باجوہ کو اس نعرے کی حقیقت ثابت کرنے کیلیے مناظرے کا چیلنج بھی دے دیا۔ یہ پی ٹی ایم کی سیاسی اور اخلاقی جرات کی انتہا ہے۔ آفرین، آفرین! اس نعرے کا لگنا پی ٹی ایم کے بنیادی اصولوں سے تجدیدِ وفا ہے۔ یہ نعرہ لگتے رہنا چاہیے کم از کم اس وقت تک جب تک یہ ریاست اور اس کے جرنیل دہشتگردی کو دامن مکمل طور پر چھوڑ کر توبہ نہ کرلیں۔
♠