لیاقت علی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلا کی ہنگامہ آرائی اورتوڑپھوڑ پرہا ہا کارمچی ہوئی ہے۔ ٹی وی چینلز پروکلا کا یہ ہنگامہ ٹاک شوز کا ہاٹ موضوع بنا ہوا ہے۔ان ٹاک شوز میں شریک ہرکوئی رونی صورت بنا کر وکلا کو مطعون کررہا ہے۔میڈیا پر سیاپے اورسوگ کاسماں ہے۔ کئی سال پرانے کلپس دوبار دکھائے جارہے ہیں۔ لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ وہ کلپس بالکل نہیں دکھائے جارہے جن میں وکلا افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے ّغنڈہ گردیٗ کررہے تھے۔
وکلا گذشتہ چند سالوں سے متشدد کیوں ہوئے ہیں اوروہ کون سے عوامل ،محرکات اور اسباب ہیں جنھوں نے وکلا کو متشدد بنانے میں کردار ادا کیا ہے ان کی طرف توجہ دینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ پھر صحافی وکلا کے اس قدر خلاف کیوں ہیں؟ اس پہلو پر بھی کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔یاد رہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے بعد وکلا گردی کی اصطلاح سامنے آئی۔ جونیئر وکیلوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے حق میں فیصلہ نہ ہونے پر ایک جتھہ کی صورت میں عدالتوں پر حملہ کیا، ججوں پر حملہ کیا حتیٰ کہ عدالت میں پیش ہونے والے پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
وکلا اورصحافی سماج کے دو پیشہ ورانہ پریشر گروپش ہیں ۔دونوں حکومت، سیاست اور معیشت سے جڑے قبضہ گروپس سے اپنا حصہ وصول کرنے میں کوشاں اور متحرک رہتے ہیں اور یہیں سے ان کے مابین اختلاف اورعناد جنم لیتا ہے۔ وکلا اور صحافیوں کےمابین عناد کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دونوں پیشے یہ سمجھتے ہیں کہ سماج اور حکومت و ریاست پر ان کا دباو زیادہ اور موثر ہے۔ یہ وہ باہمی چپقلش ہے جو ان کے مابین عناد اور غصہ پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔
حکمرانوں سے مراعات ،فوائد اورمال غنیمت کی تقسیم پربھی وکلا اور صحافیوں کے مابین تضاد موجود ہے۔صحافی سمجھتے ہیں کہ سرکار دربار میں ان کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے جب کہ وکلاحکومتیں بنانے اور توڑنے میں اپنے کردار کو بہت زیادہ اہم بتاتے ہیں۔ یہی وہ عناد ہے جس کی بنا پر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے بہت مرچ مصالحہ لگا کر وکلا کی اس ہنگامہ آرائی کی رپورٹنگ کی ہے۔
وکلا ایک وقت تک جمہوری تحریک کا ہراول دستہ ہوا کرتے تھے اورغیر جمہوری حکومتوں اوران کی آمرانہ پالیسوں کی مزاحمت بار ایسویسی ایشنز کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا لیکن جوں جوں ہماری ریاست کی جڑیں آمریت میں پیوست ہوتی چلی گئیں تو ریاست پر قابض غیر جمہوری اور غیر مقبول قیادت نےسماج میں موجود پریشر گروپس کی مددو تعاون حاصل کرنے کے لئے رشوت اورمراعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرناشروع کردیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر حکومت نے وکلا اور صحافیوں کو آوٹ آف دی وے جاکر خوش اور چاپلوسی کرنے کے لئے انھیں مراعات،عہدے اور پلاٹس بانٹنا شروع کردیئے۔ ججوں نے اپنے عہدوں کے تحفظ کے لئے بار کے عہدیداروں کا سہاراڈھونڈنا شروع کیا اور اس کی خاطر بار عہدیداروں کے ہر جائز اور ناجائز کام ترجیحی بنیادو ں پر ہونے لگے۔ بار کے عہدوں کے اس منفعت بخش استعمال کی بدولت بار الیکشن میں مافیاز کو بالا دستی حاصل ہوگئی اور نان پروفیشنل وکلا تاجروں،صنعت کاروں اور قبضہ گروپوں کی مالی مدد کے ساتھ بار کا الیکشن جیتنے لگے۔ خود حکومتوں نے بھی وکلا کو پلاٹس اور عہدوں کی شکل میں رشوت دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے دباو پر ایک سیکٹر میں وکلا کو پلاٹوں کا جھانسہ دیا گیا اور اس کام میں عدلیہ نے وکلا کے ان پلاٹس کے حصول کے لئے بھرپور مدد کی، گویہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ نواز شریف نے بطور وزیراعلی پنجاب لاہور میں وکلا میں ایک ہزار پلاٹس تقسیم کئے تھے۔ لاہور کی صحافی کالونی جس تیزی سے قائم ہوئی اس میں ترقیاتی کام ہوئے وہ صحافیوں کے دباو اور حکومت کی خوشنودی پر مبنی پالیسی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا تھا۔
عدلیہ بحالی تحریک میں جس طرح وکلا کو استعمال کیا گیا تھا اس نے وکلا کے حوصلوں کو بہت بلند کردیا۔ جب چیف جسٹس ڈوگر اور ان کے حواریوں کی سر عام مٹی پلید کی گئی اور وکلا کو ان کے اس ْ کارنامےٗ کی بے پناہ داد ملی تھی اور یہ داد دینے میں ہماراچوبیس گھنٹے والا الیکٹرونک میڈیا پیش پیش تھا۔ جب لاہور میں ایک وکیل نے وفاقی وزیر قانون شیر افگن نیازی کی سر عام پٹائی کی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔ کیا انھوں اس واقعہ کی مذمت کی تھی؟ جس وکیل نے نیازی کے کپڑے اتارے تھے لاہور کا وہ وکیل اس واقعہ کی بنا مصروف ترین وکیل بن چکا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے ساتھ ایک ایسے شخص لے کر گھوما کرتے تھے جو جعلی وکیل تھا اور کسی بار ایسوسی ایشن کا رکن ہی نہیں تھا۔
وکلا کی غندہ گردی پر قابو پانے کے لئے عدلیہ کو میرٹ پر کام کرنا ہوگا چہرے دیکھ کر انصاف بانٹنے کی طریقہ کار کو ترک کرنا ہوگا۔ رشتہ داروں ، دوستوں اور ان کے دامادوں بیٹوں اور بھائیوں کو ججوں کی کرسیاں پر بٹھائیں گے تو وکلا کی غنڈہ گردی میں کمی نہیں اضافہ ہوگا کیونکہ خود دوسرے چور کو حوالہ پولیس نہیں کرسکتا۔
کل کے واقعہ کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف سکیورٹی آفیسر کی مدعیت میں 21وکلا جن میں خواتین وکلا بھی شامل ہیں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا ہے کیا یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے گا؟ کبھی نہیں آج تک کی تاریخ تو اس کی تائید نہیں کرتی۔ آخر کار فریقین میں صلح صفائی ہی ہوئی ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے اس واقعہ میں بھی فریقین کے مابین صلح ہوگی اور معاملہ ٹھپ ہوجائے گا
♦