جانے کیوں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کی حالیہ سیاسی صورتحال سے اپنے ادارے کی مکمل لاتعلقی اور فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کے ’’حکم‘‘ کو ملک کے ان ٹاک شوز میں وہ پذیرائی نہیں مل پائی جہاں وینا ملک اور میرا کے سکینڈلز سے لے کر بے تکے بین الاقوامی موضوعات پر چھوٹے دماغوں سے سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے۔
وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حالات حاضرہ کے بازار میں وکلا کا اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا، گذشتہ سینیٹ الیکشن کی خرید و فروخت کی متنازع ویڈیو، سرکاری ملازمین کا احتجاج اور سینیٹ انتخابات میں چلنے والا جوڑ توڑ کے سلسلوں کا منجن کلو کے بھاؤ بک رہے تھے۔گذشتہ برس ستمبر میں بھی سیاسی معاملات سے لاتعلقی کا ایک اعلان جنرل قمر جاوید باجوہ سے منسوب ہوا تھا چونکہ اس وقت کی سیاسی فضا میں ایسے کسی قسم کے بیان کی کمی محسوس نہیں کی جا رہی تھی تو شاید اس کو وہ اہمیت بھی نہیں دی گئی۔
لیکن عسکری قیادت کا حالیہ جاری کردہ فرمان تو تکنیکی لحاظ سے ملک کے اپوزیشن اتحاد کی مراد بر آنے کے مترادف تھی، جس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے 26 مارچ کے لانگ مارچ میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اس دن اجتماعی لڈیاں ڈالنے کا بندوبست کرتیں۔پر کیا کریں محترم مولانا فضل الرحمٰن کا جو اپنی ’’ضعفِ اِعتقاد‘‘ پر خالی ہاتھ لوٹنے کے لئے تیار نہیں۔ سارا دوش اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کو دینا بھی درست نہیں، ریاستی ادارے کی نیک نیتی کے بڑے دشمن تو ان کی اپنی ایک پیج والی حکومت کے وہ متوالے بھی ہیں جو قوم کو ملکی معاملات میں گھسٹنے کے فائدے گنوا کر ادارے کی خواہ مخواہ کی نیکی کو ضائع کرنے کے درپے ہیں۔
آخر کریں بھی تو کیا کریں، بحیثیت قوم ایک طرف ہمیں معززین کی باتوں پر ایمان نہ لا کر دنیا کی غم کھائے جاتی ہے تو دوسری طرف گاہے گاہے جمہوری آبیاری سے پیدا ہونے والے خوشحالی کے ’’گیلے‘‘ خواب بھی دق کرتے رہتے ہیں، تو ایسے میں ہم لوگوں کی امید کی کرنوں کا دارومدار بھی عسکری قیادت کے وقفے وقفے سے عطا کردہ کچھ جمہوری جملوں کے علاہ کچھ نہیں ہوتا۔
حالیہ عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی معاملات سے اعلان لاتعلقی کے بعد اب ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں اب کوئی ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق یا مشرف نما سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر ملک کو بچانے کی کوشش ’’نہ‘‘ کر کے قوم پر احسان عظیم کرے گا۔نہ ہی ’نظریہ ضرورت‘ کے کلیے کے تحت ججوں کو آگے لگایا جائے گا اور نہ ہی مبینہ ویڈیو جیسے ہتکھنڈوں سے عدالتوں کو نیچے لگایا جائے گا۔ آئندہ نہ کوئی اسلم بیگ اور اسد درانی جیسے کسی منتخب حکومت کے خلاف مبینہ رقوم کی ترسیل کے نگران بنیں گے اور نہ ہی ان جیسوں کی ’انگلیاں‘ کسی کے ہاتھ میں جا کر انہیں اقتدار کے چوکھٹ تک لانے کا وسیلہ بنیں گے۔
آئندہ نہ تو کسی سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے منہ سے سیاسی معاملات میں ادارے کی مداخلت کا اقرار نامہ سننے کو ملے گا اور نہ ہی آئی بی کا کوئی سابق سربراہ کسی پارٹی کو جتوانے کے لئے کی گئی کاوشوں کا کتھا سناتے نظرآئے گا۔الیکشن والے دن نہ کوئی آرمی چیف کسی امیداوار کو سب کچھ ٹھیک ہو جانے کی تسلی دیتا سنا جائے گا، نہ ہی کوئی کسی سیاسی جماعت کی جیت پر قرانی آیت شیئر کرتا نظر آئے گا۔نہ کوئی آرمی سربراہ منتخب حکومت کو ’’بچانے‘‘ کے نام پر شہر میں دھرنے دینے والوں کا ثالثی بننے کے لئے بے قرار نظر آئے گا، اور نہ ہی کسی آرمی چیف کو فون کر کے کسی سیاسی جماعت کے لانگ مارچ کو واپسی کا راستہ دکھانے کی ضرورت پڑے گی۔
نہ کوئی صاحب بطور ’ضامن‘ کسی مذہبی دھرنے کو ختم کروانے کے لئے میدان میں کودیں گے اور نہ ہی کسی کو دھرنے کے شرکا میں خرچہ پانی بانٹنے والی نوبت لانے کی ضرورت پڑے گی۔نہ ہی کسی کو اپنے ٹویٹ میں کسی حکومتی نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے کا حوصلہ ملے گا اور نہ ہی کسی کو کسی ’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ کی گلوخلاصی کروانے کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کی مجبوری لاحق ہو گی۔عسکری ذرائع ملک کے کسی بھی معاملے میں سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے عمل سے کنی کترائیں گے اور ان کو سیاسی جماعتوں کے کسی بھی ادارے سے متعلق تحفظات سننے میں بھی دلچسپی نہیں ہو گی۔نیز ادارے کی طرف سے سیاحتی دوروں کی سہولت بھی بند کی جائے گی اور ففتھ جنریشن وارفیئر کے میدان میں مجاہدوں کو جھونکنے سے بھی گریز کیا جائے گا۔
کہنے کو تو خوش گمانیاں اور بھی ہیں پر کیا کریں ہماری ان خوش گمانیوں کی بنیاد آئین کی جس کتاب سے جڑی ہیں، اس کے اوراق اتنے کمزور ہیں کہ اس کی دھجیاں بکھیرنے پر بھی کوئی مائی کا لال ثابت نہیں کر سکتا کہ ’فوج‘ کا سیاست سے کوئی تعلق ہے۔
♦