پاکستان کے شمال مشرقی حصے میں ایک امدادی تنظیم کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں چار خواتین ہلاک ہو گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ خواتین ایک غير سرکاری تنظيم کے لیے کام کرتی تھیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شمالی وزیرستان کے پولیس سربراہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ نا معلوم مسلح افراد نے خواتین امدادی کارکنوں کی گاڑی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ سیف اللہ گنڈاپور کے مطابق یہ خواتین ایک اين جی او کی کارکنان تھیں جو دیگر خواتین کو تربیت فراہم کرتی ہے۔
گنڈا پور کے مطابق، ”ان خواتین کو دہشت گردوں کی طرف سے ہدف بنایا گیا اور قتل کیا گیا ہے۔ مگر یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ اس میں کون سا گروپ ملوث ہے‘‘۔
روئٹرز کے مطابق ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے، جو خواتین کی تعلیم و تربیت کے مخالف ہیں، پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں خواتین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان ایک بار پھر اس علاقے میں اپنی سرگرمیاں بڑھاتے نظر آرہےہیں۔
پاکستانی طالبان نے 2012ء ميں سوات میں فائرنگ کر کے ملالہ يوسف زئی کو شدید زخمی کر دیا تھا کیونکہ وہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرتی تھیں۔ ملالہ کو علاج کی غرض سے برطانیہ شفٹ کیا گیا تھا۔ انہیں 2014ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا اور وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت بن گئی تھیں۔
وزیرستان کے علاقے کبھی القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کا گڑھ رہے ہیں جس کے بعد پاکستانی فوج نے عسکری آپریشن کر کے اس علاقے کو شدت پسندوں سے پاک کیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق پیر 22 فروری کو ہونے والا فائرنگ کا یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغان سرحد سے متصل ان علاقوں میں تشدد میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ علاقے کبھی القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کا گڑھ رہے ہیں جس کے بعد پاکستانی فوج نے عسکری آپریشن کر کے اس علاقے کو شدت پسندوں سے پاک کیا تھا۔
ان سابقہ قبائلی علاقوں کو پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیے جانے کے بعد سے ان علاقوں کو سویلین حکام کے حوالے کرنے کا عمل جاری ہے۔
مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات سميت ملک کے دیگر حصوں میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کیے جانے والے حملوں میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی شہری مارے جا چکے ہيں۔ ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے باوجود یہ اب بھی کبھی کبھار حملے کرتے رہتے ہیں۔
dw.com/urdu & Web desk