میانمار کی فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران بدھ کے روز کم از کم 38 افراد ہلاک ہوگئے۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر گولیاں چلانے، آنسو گیس کے شیل داغنے اور ربر کی گولیاں چلانے کی ملک بھر سے خبریں موصول ہوئی ہیں۔اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ کرسٹین شارنر برجنر کا کہنا ہے کہ میانمار میں بدھ کے روز مظاہروں کو کچلنے کے دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں کم از کم 38 افراد ہلاک ہوگئے۔
متعدد ذرائع کے مطابق فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران بدھ تین مارچ سب سے خراب دن رہا۔ سکیورٹی فورسز نے کئی شہروں اور قصبوں میں مظاہرین پر گولیوں نیز آنسو گیس کے شیل اور ربر کی گولیوں کا استعمال کیا۔ شارنر برجنر کا کہنا تھا ”یکم فروری کوہونے والی بغاوت کے بعد سے آج کا دن سیاہ ترین دن تھا۔ آج 38 افراد مارے گئے“۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد اور مظاہرین کو گولی مارنے کی ویڈیوز ”انتہائی تشویش ناک‘‘ہیں۔ شارنر برجنر نے کہا ”ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کرنے کے لیے نو ایم ایم کی چھوٹی مشین گنوں جیسے ہتھیار استعمال کیے“۔
شارنر برجنر نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے ”اس صورت حال کو روکنے“ کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنے کی اور بین الاقوامی برادری سے اس سلسلے میں اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ ایک دن قبل ہی پڑوسی ملکوں کی حکومتوں نے میانمار کے حکام سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی تھی۔
مونیاوا گزٹ کی رپورٹ کے مطابق میانمار کے ساگینگ صوبے کے مونیاوا شہر میں گولی لگنے سے کم از کم چھ افراد ہلا ک ہوگئے۔
مرکزی شہر میں پچھلے مہینے بغاوت کے خلاف کئی بڑے مظاہرے ہوچکے ہیں۔
منڈالے شہر میں دو مظاہرین، ایک 37 سالہ مرد اور ایک 19سالہ خاتون کی ہلاکت کی بھی خبرہے۔وسطی قصبے مائنگ یان میں بھی ایک شخص ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے۔ جب کہ ایک دیگر شخص کی ہلاکت کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔
اسٹوڈنٹ لیڈر موئے منٹ ہین، جو پاوں میں گولی لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں، نے مائنگ یان سے روئٹر ز کو ٹیلی فون پر بتایا ”انہوں نے ہم پر گولیوں کی بوچھار کر دی۔ ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ وہ نوجوان تھا، ایک کمسن بچے کے سر میں گولی لگی ہے“۔
بین الاقوامی رضاکار تنظیم سیو دی چلڈرن نے ایک بیان میں بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں چار بچے شامل تھے ان میں ایک چودہ سالہ بچہ بھی شامل ہے جسے فوجی ٹرکوں کے قافلے میں شامل ایک فوجی نے مبینہ طور پر گولی مار دی تھی۔ رپورٹ کے مطابق فوجیوں نے لاش کو ٹرک پر رکھا اور وہا ں سے روانہ ہوگئے۔عینی شاہدین کے مطابق یانگو ن شہر میں کم از کم آٹھ افراد مارے گئے ہیں۔
مظاہرین میں شامل 23 سالہ کایونگ پائی سون نے روئٹرز کو بتایا، ”میں نے فائرنگ کی مسلسل آوازیں سنیں۔ میں زمین پر لیٹ گیا۔ انہوں نے بہت زیادہ گولیاں چلائیں“۔
رات کے وقت یانگون کے رہائشیوں نے موم بتیاں روشن کر کے متاثرین کے لیے دعائیں کیں۔
میانمار میں یکم فروری کو فوجی بغاوت اور سویلین رہنما آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے بعد سے ہی افراتفری کا ماحول ہے۔اس بغاوت کی وجہ سے میانمار میں ایک عشرے سے جاری جمہوری نظم حکمرانی کا تجربہ تھم گیا ہے اور روزانہ عوامی احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان مظاہروں میں اب تک مجموعی طورپر پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
میانمار کی فوجی حکومت نے منگل کے روز کہا تھا کہ اس نے آنگ سان سوچی کی طرف سے مقرر کردہ اقو ام متحدہ کے لیے سفیر کیاو موئے ٹن کو معطل کردیا ہے۔ ٹن نے اس کی تردید کی ہے اور کہا کہ وہ اب بھی اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔