بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان میں سینٹ کے تازہ انتخابات اوران کے ڈرامائی نتائج نے سینٹ کے انتخابی عمل کی شفافیت پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ سینٹ میں جو کچھ ہوا اس میں نیا کچھ نہیں۔ خود وزیر اعظم نے برملا اعتراف کیا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سینٹ میں ووٹ کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ خرید و فروخت اس وقت انتہائی سنجیدہ اور تشویشناک سوال بن جاتا ہے، جب بکنے والے لوگ خود منتخب شدہ اراکین پارلیمنٹ ہوں۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر کچھ آمریت پسندلوگ اسے مغربی جمہوریت کی ناکامی قرار دیتے ہیں، اور کسی نئے نظام کی بات کرتے ہیں۔ ۔ حالاں کہ مغربی دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک میں صدیوں سے یہ نظام موجود ہے۔ یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے، اور قابل رشک نتائج دے رہا ہے۔ یہ جمہوری نظام کی ناکامی نہیں،بلکہ جمہوری نظام کے اندر سرگرم افراد کے کردار اور نظریات کا مسئلہ ہے۔ جہاں تک نظام کا تعلق ہے تو اس وقت تک پاکستان میں تقریبا دنیا کے ہر معلوم نظام کا تجربہ کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
مختلف الخیال لوگوں کی طرف سے پاکستان کو اپنے خیالات و نظریات کی تجربہ گاہ بنانے کی خواہش نئی نہیں ہے۔ یہ خواہش خود پاکستان سے بھی پرانی ہے۔ گویا قیام پاکستان سے بہت پہلے بہت سے افراد اور گروہوں اور جماعتوں نے قیام پاکستان کی صورت میں یہاں اپنے من پسند سماجی و معاشی نظام کا تجربہ کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ یہ بات خود قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک آدھ تقریر میں پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست کا تجربہ کرنے کی بات کی تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی بہت سی باتیں قائد اعظم سے منسوب کی جاتی ہیں، جو بہت ہی مختصر اور بسا اوقات صرف ایک آدھ فقرے تک محدود ہیں۔ اور اگر ان کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اکثر یہ فقرے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیے گئے ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ ان کے ارشادات کو سیاق و سباق سے سے کاٹ کر اپنے مقاصد کے لیے پیش کرنے میں اس لیے بھی کامیاب ہوئے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے زیادہ تر خیالات کا اظہار تحریر کے بجائے تقاریر کے ذریعے کیا۔یہی وجہ ہے کسی بھی موضوع پر ان کے خطوط کے علاوہ کوئی تفصیلی تحریریں موجود نہیں ہیں، جن سے نظریاتی مباحث کے لیے استفادہ کیا جا سکتا ہو۔ ، اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ ہمارے ہاں سیاست میں تو جھوٹ سچ کو آپس میں گڈمڈ کرنے کی روایت تو بڑی مضبوط رہی ہے، لیکن سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی باتوں میں سیاست تو ایک طرف بسا اوقات احادیث شریف تک کو نہیں بخشا گیا، اور تاریخ کے ہر دور میں کچھ نا عاقبت اندیش لوگ احادیث مبارکہ، صحابہ کرام کے اقوال یہاں تک کہ نعوز باللہ قران شریف کی آیات تک تک کو مسخ کر کہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔
ایسی روایات کی موجودگی میں قائد اعظم کے اقوال کو من پسند رنگ دینا اس قبیل کے لوگوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں رہی ہے۔ سینہ بہ سینہ کے علاوہ قائد اعظم کی تقاریر کو محفوظ کرنے کا دوسرا طریقہ ان کی اخبارات اور ریڈیو وغیرہ تھا، جن کے ذریعے ان کی رپورٹنگ ہوتی تھی۔ زیادہ تر قابل اعتبار رپورٹنگ ان دنوں غیر ملکی انگریزی یا فرانسیسی اخبارات میں ہوتی تھی، لیکن ان اخبارات میں روز مرہ کے بیانات نہیں، بلکہ اہم ترین نوعیت کی بڑی خبریں ہی رپورٹ ہوتی تھیں، یا پھر کسی انتہائی حساس مسئلے پر کوئی پالیسی بیانات، جن کی اس وقت اہم جیو پولیٹیکل حیثیت ہوتی تھی۔
اس وقت برصغیر میں اردو اور ہندی کے چند ایک اخبارات سمیت مقامی اخبارات میں کچھ رپورٹنگ قابل اعتبار ضرور تھی، لیکن اکثر رپورٹنگ پر ایڈیٹر کے اپنے خیالات، خواہشات اور تعصبات کی گہری چھاپ ہوتی تھی۔ آج اگر برٹش اخبارات کے آرکائیوز اور اس وقت کے ہندوستانی اخبارات کے آرکائیوز کا آپس میں تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تو یہ صورت حال سمجھ میں آتی ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران زمیندار، الہلال، اور انقلاب وغیرہ کی رپورٹنگ اور تجزیوں میں نمایاں فرق ہے، جو ان اخبارات کے مدیروں کی سوچ کا عکاس ہے۔ لیکن بد قسمتی سے قیام پاکستان کے باقاعدہ اعلان کے بعد بھی ذرائع ابلاغ میں بیٹھے ہوئے کچھ متعصب اور تنگ نظر لوگوں کی وجہ سے قائد اعظم کے خیالات کو میڈیا میں اس طرح غیر جانب داری سے نہیں پیش کیا گیا۔
قیام پاکستان کے باضابطہ اعلان کے بعد قائد اعظم کا سب سے اہم ترین خطاب ان کی گیارہ اگست1947 والی تقریر ہے۔ یہ تقریر اتنی واضح دوٹوک اور واشگاف الفاظ میں تھی کہ اس میں رد و بدل یا اس کی اپنی اپنی پسند کے مطابق تشریح کرنے کی گنجائش نہیں تھی، لیکن پھر بھی کچھ “فنکاروں ” نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ کچھ نے اس میں کانٹ چھانٹ کرکہ من پسند پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کی، کئی ایک نے سرے سے اس کو ” بلیک آوٹ” ہی کر دیا۔ کسی نے کہا اس کی وڈیو غائب ہو گئی اور کسی نے اسے ریڈیو کے آرکائیو سے چرانے کی کوشش کی۔
یہ وہ چھپے رستم اور “خدائی فوج دار” قسم کے لوگ تھے، جو قائد اعظم کے خیالات پر بھی نظر رکھنا، اور ہو سکے تو ان خیالات کو کنٹرول کرنا اپنا پیدائشی حق تصور کرتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ قائد اعظم پاکستان میں کون سے نظام کا تجربہ کرنا چاہتے تھے، اس خلاصہ اس گیارہ اگست والی تقریر میں موجود تھا۔ اس باب میں قائد اعظم کی سوچ اور ارادوں کی ایک جھلک پاکستان کی ابتدائی کابینہ کی تشکیل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا، اور اس باب میں جو کچھ بھی ہوا، وہ گیارہ اگست کی تقریر سمیت ان کے بیشتر خیالات سے متصادم تھا۔ قائد اعظم کے خیالات سے براہ راست تصادم کا یہ سلسلہ حکومتی ایوانوں اور نوکر شاہی کی رہداریوں میں شروع ہوا۔
گیارہ ستمبر 1948 کے بعد اس عمل میں تیزی آئی۔ سات مارچ 1949 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کی۔ یہ قرار داد بارہ مارچ کو پاس ہو گئی۔ اقلیتی ممبران نے قرارداد میں ترامیم لانے کی کوشش کی جو مسترد کر دی گئی، نتیجے کے طور پر دس کے دس اقلیتی ممبران نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ قرارداد ایک اہم تاریخی دستاویز تھی، جس میں اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت دونوں کے تصورات کو یکجا کی کوشش کی گئی۔ آگے چل کر یہ سلسلہ پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ غلام محمد کے اس دو ٹوک اعلان پر منتج ہوا کہ ” میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے، اور نہ ہی میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک اسلامی ریاست میں تمام شہریوں کے حقوق ان کے عقیدے سے قطع نظر برابر ہوتے ہیں۔
یہ سرکاری اور وزارت عظمی کی سطح پر قائد اعظم کی تقاریراور دیگر فرمودات کو ایک طرف رکھ کر اپنی خواہشات اور نظریات کے مطابق نظام حکومت کا تجربہ کرنے کا آغاز تھا۔ آگے چل کر ہر طرح کے سیاسی اور مذہبی خیالات کے حامل لوگ پاکستان میں اپنی اپنی خواہشات کا کامیاب تجربہ کرنے کا ارادہ لیکر سیاسی افق پر متحرک ہوگئے۔ ان میں وہ مذہبی پیشوا سر فہرست تھے، جو قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد قائد اعظم کے بدترین ناقدین میں شامل تھے۔ لیکن اب ان لوگوں کو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا بھر پور موقع نظر آنا شروع ہو گیا تھا، اور اقتدار میں بیٹھے ہوئے کئی لوگ ان کو یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تیار تھے۔
چنانچہ پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کو ان کی خواہشات نما خیالات کے پرچار کے لیے کھول دیا گیا۔ ریڈیو پاکستان پر ان کے گھنٹوں لیکچر چلنے لگے۔ کچھ اخبارات کے ادارتی صفحات ان لوگوں کے حوالے ہو گئے، جو روزانہ اپنےکالموں میں یہ ثابت کرنے میں جت گئے کہ قائد اعظم سے بڑا “اسلامسٹ” کوئی نہیں تھا، اور ان کی زندگی کا واحد مقصد پاکستان میں نظام اسلام کا نفاز تھا۔ اس طرح ملک میں نظریاتی افراتفری کا ایک ماحول پیدا ہوا۔ قدیم محلاتی سازشوں کی طرز پر سازشوں کا آغاز ہوا۔ وزیر اعظم ہاوس ایک “ریوالونگ ڈور” بن گیا۔ 1947سے لیکر 1958 تک گیارہ سال کے عرصے میں سات وزرائے اعظم اس دروازے سے گزر چکے تھے۔
اسلامی جمہوریت، اور مغربی جمہوریت کی لایعنی بحث کے دوران جو طالع آزما ایک عرصے سے گھات لگائے بیٹھے تھے، انہوں نے موقع غنیمت جانا اور جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ کر پاکستان کی دھرتی پر آمریت کا تجربہ کرنے کا دیرانہ خواب پورا کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا۔ آمریت کا یہ تجربہ کرنے والے حکمران اپنی زاتی زندگی میں اسلامی طرز زندگی اپنانے یا اس کے ظاہری و باطنی احکامات پر عمل کے قائل نہیں تھے، مگرعام لوگوں کو نظام اسلام اور اسلامی جمہوریت وغیرہ کی تلقین بھی کرتے رہتے۔ یہ اپنے کردار اور سیاسی سوچوں کے اعتبار سے سے “کلاسیکل ڈکٹیٹر” تھے، جن کو کچھ لوگوں نے غلط طریقے سے لبرل کا نا مناسب نام دے دیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں “لبرل ازم “بھی نا حق بدنام ہوا۔
لبرل ازم ایک سیاسی نظریہ اور طرز زندگی ہے، جس کا بے راہ روی سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی سوچ کے اعتبار سے ان کا لبرل ازم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ سخت تعصبات کا شکار حکمران ٹولہ تھا، جس نے سرد جنگ کی حالت میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مغربی بیساکھیوں کا سہارا لیا۔ قومی اور عوامی مفادات کو ایک طرف رکھ کر اس وقت کے مغربی سامراجی ایجنڈے کو اپنا کر مغربی مالی امداد اور اخلاقی حمایت کے زریعے اپنے اقتدار کو طوالت بخشتے رہے۔ اگلے عشرے تک یہ لوگ پاکستان میں مغربی امداد اور قرضوں کے ذریعے عام لوگوں کو صنعتی انقلاب برپا کرکہ دینے کا خواب دکھاتے رہے۔
یہ خواب مطلق ا لعنانیت اور رجعت پسندانہ پالیسیوں کا شکار ہو کر بکھر گیا۔طویل ناکام پالیسیوں کی وجہ سے حکمران طبقات کے اندرونی تضادات ابھر کر سامنے آ گئے۔ ان تضادات کے نتیجے میں افق پر زولفقار علی بھٹو جیسا نابغہ روزگار شخص نمودار ہوا۔ ان کے دامن میں مغرب کے بہترین سکولوں کی تعلیم اور آمریت کے سائے میں مقامی اور عالمی سیاست کا “فرسٹ ہنڈ تجربہ” تھا۔انہوں نے اس ” تجربے” کی روشنی میں سب نظریات کو ایک جگہ سمونے کے لیے کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ بلند کیا ۔ گویا دنیا کی اہم ترین کامیاب نظاموں سے اہم ترین نعروں کو یکجا کر کہ پارٹی کے منشور میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ مگر اس تجربے کی ناکامی ناگزیر تھی، جس کا سبب خود اس کے اندر موجود بے پناہ تضاد ات تھے۔
بھٹوتاریخ سے آگہی رکھتے تھے۔ وہ روس اور چین کے سوشلسٹ انقلاب کی برکات سے آگاہ تھے۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ روس اور چین نے انقلاب برپا کرنے والوں نے وہاں کی رجعت پسند قوتوں سے کسی قسم کا سمجھوتا کرنے سے انکار دیا تھا۔ مذہبی قدامت پرستی، اور قدیم جاگیردارانہ بندوبست کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا، اس س کی جگہ جدید سوشلسٹ معشیت کی بنیاد رکھی تھی۔ جمہوریت کے باب میں دونوں ملکوں نے پرولتاری آمریت کا نظریہ اپنایا تھا، تضاد کی کوئی صورت انہوں نے چھوڑی نہیں تھی۔ حیرت انگیز طور پر قلیل مدت میں انہوں نے کروڑوں بھولے ننگے انسانوں کو غربت کی دلدل سے باہر نکال دیا تھا۔ بھٹو اگر مخلصی سے یہ تجربہ کرتے تو پاکستان سے غربت ، پسماندگی اور جاگیرداری ختم ہو سکتی تھی، مگر وہ اپنے ہی نطریاتی تضادات کا شکار ہو کر یہ عظیم موقع گنوا بیٹھے۔
اس تجربے کی ناکامی کے نتائج بہت بھیانک تھے۔ اس کے نتیجے میں ملک پر بد ترین آمریت کا تسلط قائم ہوا۔ اس بار آمریت پسند قوتیں نفاذ اسلام کا یک نکاتی تجربہ کرنے کی خواہش لیکر آئے تھے۔ مگر ان کے خواب کا جو حشر ہوا، اور ان کے خواب نے پاکستان کا جو حشر کیا اس کا خمیازہ نسلیں بھگت رہی ہیں، اور جانے کب تک بھگتتی رہیں گی۔ برصغیر میں صدیوں سے موجود اور طول عرض تک پھیلا ہوا اسلام شاید ان کے لیے نا قابل قبول تھا، اس لیےاس مقصد کے لیے انہوں نے سعودی عر ب جیسے ممالک سے رجوع کیا۔ اور سعودی سکالرز کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے یہ طے کرنا تھا کہ اسلام کیسے، اور کون سی شکل میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اسلام کا وہی مخصوص برانڈ تھا، جس کے بارے میں موجودہ سعودی حکمران اشرافیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے مغرب کی ایما پر اپنایا تھا، اور جس سے آج سعودی حکمران تائب ہو رہے ہیں۔
ظاہر ہے اس قسم کا اسلام یہاں کیا نافذ ہوتا، مگر نفاذ اسلام کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا، اس کی بازگشت آج بھی گاہے سنائی دیتی ہے۔ آمریت پسندوں کا یہ تجربہ پچھلے تجربوں سے کئی زیادہ ناکام ہوا۔ مارشل لا کے خاتمے کے بعد جمہوری حکومتوں کے آنے جانے کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ بار بار ٹوٹنے والی جمہوریت اور آمریت کے کھیل کے دوران، سوشل ڈیماکریسی، دائیں بازوں کی قدامت پرست آمریت زدہ جمہوریت، اور روشن خیال آمریت کے سائے میں ماہرین پر مشتمل محدود جمہوریت کے تجربات کیے گئے۔ ان تجربات کی ناکامی کے بعد جمہوریت کے دو یکے بعد دیگرے نسبتا کامیاب ادوارآئے، جب منتخب حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی۔ دونوں حکومتیں اپنے اپنے ادوار میں کچھ مایوسیوں اور ناکامیوں کے باوجود اپنی بقا کی جنگ میں کامیاب رہے ، اور جمہوریت کو بڑے صبر اور حوصلے سے آگے منتقل کرنے، اور تسلسل بخشنے میں کامیاب رہے۔
اس طویل کہانی کے بعد پاکستان کے افق پر موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان نمودار ہوئے۔ پاکستان میں نیا تجربہ کرنے کی جتنی شدید خواہش یہ وزیر اعظم لے کر آئے تھے، اور یہ تجربہ کرنے کے جس کثرت اور تسلسل سے انہوں نے اعلانات کیے تھے۔ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی قدیم اور جدید تاریخ سے کسی بھی قوم و ریاست کی ہر اچھائی کو مستعار لے کر اس کا تجربہ پاکستان میں کرنا چاہتے تھے۔ اس خواہش کا آغاز انہوں نے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک وغیرہ کی سوشل ڈیموکریسی سے کیا۔ پھر انگلستان کی فلاحی ریاست کی کچھ خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ریاست مدینہ تک جا پہنچے۔ کچھ عرصہ ریاست مدینہ کی خوبیوں کے معترف رہنے کے بعد چین کی خوبیوں کے اسیر ہوگئے۔ تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دو واضح معاشی ع سماجی نظام کے تعین کے بغیر کسی بھی سماج میں نہ تو ریاست مدینہ کا تجربہ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی مارکسسٹ قیادت میں چلنے والا مخلوط چینی نظام لایا جا سکتا ہے، جسے چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے ترمیم پسندانہ نظریات کے تحت چلا رہی ہے۔
♣
One Comment