نعمان عالم
بچپن خاص کر چار سے آٹھ سال کی عمر انتہائی حساس ہوا کرتی ہے ، جن خواتین و حضرات کے بچے عمر کے اس حصے میں ہیں انکو انتہائی محتاط ہونا چاہیے کیونکہ خاص طور پر اس عمر میں بچے کا حافظہ حساس ترین سٹیج سے گزر رہا ہوتا ہے اور وہ آپکے ہر اچھے اور برے عمل کو بہت ہی حساس طریقے سے سمجھتا ہے اس عمر میں اگر آپ نے اپنے بچے کو کسی چیز یا کسی کام سے منع کرنا ہے تو احتیاط سے اور بہت ہی چالاکی سے منع کرنے کا کوئی طریقہ نکالیں کیونکہ اگر آپ زبردستی کریں گے یا کوئی جسمانی تشدد کا طریقہ اپنائیں گے تو وہ آپ کے اس عمل کو اچھی طرح سے یاد رکھے گا اور اپنی ساری زندگی آپکے اس عمل کو یاد رکھے گا ، ہم عام طور پر ان باتوں پر غور نہیں کرتے ، بچے نے کچھ مانگا تو ہم ڈانٹ دیتے ہیں یا پھر تھوڑی بہت دبکی لگا دیتے ہیں یہ انتہائی غلط عمل ہے ، بچوں کو اپنی سختی سے دور رکھیں بلکہ اپنے اندر سے سخت ذہنیت نکال باہر کیجئے۔
بچوں کو سمجھنے کے لئے اور انکو سمجھانے کے لئے آپکو انکے لیول پر آنا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انکو پیار محبت اور شائستگی سے یہ بھی باور کروانا ہوتا ہے کہ ہم انکے والدین ہیں اور ہمارا احترام اور عزت ان پر واجب ہے ، اور یہیں ہم ایک سب سے بڑی غلطی کر جاتے ہیں ، وہ یہ کہ ہم عزت کروانے کے لئے ہر ممکن حد تک چلے جاتے ہیں جو کہ انتہائی غلط ہے ، اپنے بچوں کو سوال کرنا سکھائیں اور انکے جوابات انکو دیں ، اگر انکے سوال کا جواب آپکے پاس نہیں ہے تو غلط بیانی سے کام مت لیں یہ کہنے میں شرم محسوس نہ کریں کہ بیٹا یا بیٹی پاپا یا مما اس سوال کا جواب آپکو کل دے گے ابھی معلوم نہیں ہے یعنی اپنی شخصیت کو ان پر حاوی مت کریں تاکہ انکو معلوم ہو کہ آپ سے ڈرنا نہیں ہے ، سوال کرنا ہے اور اگر اسکا جواب نہیں بھی ملا تو بعد میں مل جاۓ گا
کافی دوسری غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ انکا بچہ اگر کوئی چیز مانگ رہا ہے تو اسکو نظر انداز کر دیں وہ تھوڑی دیر میں بھول جاۓ گا ، یہ ہماری سب سے بڑی غلطی ہے ، بچے کا ذہن ہمارے مقابلے میں انتہائی تازہ ، تیز اور بڑی مشکلات سے پاک ہوتا ہے ، اگر بچے نے کچھ مانگا ہے تو اسکو وہ چیز فراہم کریں ، اگر نہیں ہے تو وعدہ کریں اور اگر آپ سمجھے ہیں کہ یہ چیز نہیں فراہم کرنی تو بچے سے جھوٹ مت بولیں اور اسکو پیار سے یا نرم لہجے سے بتائیں کہ یہ چیز آپکو نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ آپ کے لئے مضر ہے
ہمارے معاشرے میں عام طور پر بچے کے ساتھ چوبیس میں سے چوبیس گھنٹے ماں ہی گزارتی ہے ، ہمارے معاشرے کا باپ نوکری اور دوسرے کام کاج میں مصروف ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ گھر میں ہر مہینے خرچ پانی لانے میں کامیاب ہوا ہے تو اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ، ہمارے معاشرے کا باپ ہفتے میں یا مہینے میں ایک دو مرتبہ کسی ریسٹورنٹ میں بچوں کے ساتھ کھانا کھا کر سمجھتا ہے کہ اس نے باپ ہونے کا حق ادا کر دیا یہ ہمارے معاشرے کے مرد کی اانتہا درجے کی غلطی ہے – آپکا بچہ لڑکی ہو یا لڑکا اسکو ماں اور باپ دونوں کی توجہ کی یکساں ضرورت ہے ، اپنی بیٹی سے ایسا رشتہ قائم کریں کہ وہ آپ کے سامنے کھیلنے، آپ سے سوال کرنے ، آپکو کچھ بتانے میں شرم محسوس نہ کرے ، اپنے بیٹوں کو اپنی بچپن، لڑکپن کے ایسے مثبت واقعات بتائے جن کو سن کر آپکے بچے سمجھ سکیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ، اپنی غلطیاں بتائیں اور آخر میں انکو بتائیں کہ میں نے یہ غلط کیا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور میں اسی لئے آپکو بتا رہا ہوں کہ آپ یہ کام مت کریں کیونکہ اسکا یہ نقصان ہو گا
ہمارے معاشرے میں فیملی پکنک کا رجحان بہت کم ہے اور یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے فیملی پکنک کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کے انتہائی قریب آ جاتے ہیں اور آپکے بچوں کے لئے ایسے لمحات تصویر کی طرح فریم میں بند ہو جاتے ہیں جو وہ ساری زندگی یاد کرتے ہیں اور اپکا بطور والدین ایک مثبت عکس انکی یاد داشت پر اثر انداز ہوتا ہے ، پکنک پر جانے کے لئے آپکو ہزاروں روپے اور گاڑی کی ضرورت نہیں ہے ، آپ اپنے قریبی ویرانے میں ، کسی نہر کنارے ، کسی ندیا کے کنارے پر جا کر پھل فروٹ ، بار بی کیو کر سکتے ہیں اور کسی ایسے کھیل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو سب کے لئے مناسب ہو یعنی بیڈ منٹن یا فٹبال وغیرہ – یہ ایسی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جو آپکے بچے کی ذہنیت اور اسکی ذات پر بہت ہی مثبت اور بہت ہی گہرا اثر چھوڑتے ہیں
اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دیں ، ان کے دوست بن جائیں اور انکے مسائل سنئے ، انکی مشکلات حل کرنے میں انکا ہاتھ بٹائیں کیونکہ بچے پیدا کرنا آدھا عمل ہے انکی تعلیم و تربیت باقی کا آدھا عمل نظر انداز مت کیجئے
♣