بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان میں اخلاقی زوال اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ انتخابات ہوں یا روزمرہ زندگی کے معاملات ، چہار سو جھوٹ ، منافقت ، بد دیانتی اور دھوکہ دہی کے الزامات کی بارش ہے، ہر طرف کرپشن کا شور ہے۔ سماج کے کسی گوشے پر نگاہ ڈالی جائے، زندگی کے کسی شعبے کا جائزہ لیا جائے۔ رشوت، سفارش، جھوٹ، منافقت، بد دیانتی اور وعدہ خلافی جیسی سماجی بیماریاں روزمرہ اور معمول کی زندگی کا حصہ لگتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان دنیا کےان محدودے چند ممالک میں شامل ہے، جہاں سچائی، دیانت داری کا سب سے زیادہ درس دیا جاتا ہے۔ اس پر سب سے تقاریر کی جاتی ہے۔ ہر چوک اور ہر محفل میں اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ کبھی فلسفے کے نام پر اور کبھی مذہب و اخلاقیات کے نام پر ان موضوعات پر بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔
اور یہ سلسلہ صرف بات چیت یا بحث و مباحثے تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس حوالے سے بھی پاکستان ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے، جس میں اس باب میں باقاعدہ سخت قسم کی قانون سازی ہوئی ہے۔ صادق اور امین جیسی اصطلاحات کو باقاعدہ قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پبلک سروس اور عوامی عہدوں کے لیے ان صفات کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس سب جمع خرچ کے باوجود عملی طور پر نتائج اس کے برعکس برآمد ہو رہے ہیں۔ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ لوگ بضد ہیں کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں، اور کرپشن کم ہورہی ہے۔
لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران کرپشن اور بد عنوانی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جس کا اظہار عالمی و مقامی سطح پر ہر قسم کی ریسرچ اور تحقیقاتی رپورٹوں میں ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس باب میں تازہ ترین اعداد وشمار ہمیں بین لااقوامی تنظیموں اورا داروں سے بھی ملتے رہتے ہیں۔ ان اعدا و شمار سے ملک میں کرپشن کے حوالے سے عالمی “رینکنگ “کا بھی پتہ چلتا رہتا ہے، جو ہمیں یاد دلاتا رہتا ہے کہ اس میدان میں تنزلی اور گراوٹ کا عمل پوری رفتار سے جاری ہے۔
دنیا بھر میں کرپشن کے خلاف نفرت، سچائی اور دیانت داری کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سماجی اور قانونی مسئلہ ہے۔ یہ ایک سماجی مسئلہ کے طور پر سماجی علوم کا حصہ ہے۔ سماجی علوم کو سکولوں، کالجز اور جامعات کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔اس کے بر عکس ہم نے اس کو سماجی سے زیادہ ایک مذہبی مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو لیکر ہمارے مدارس، مساجد میں مسلسل درس چلتے رہتے ہیں۔ خانقاہوں میں اس پر واعظ و تقاریر ہوتی ہیں۔ اس مذہبی تقدس کے باوجود ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اوصاف سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ اگلی نسل میں جو دیانت داری، سچائی، اور فرض شناسی وغیرہ کا معیار تھا، وہ اب نئی نسل میں نہیں دکھائی دیتا ہے۔
تمام غیر جانب دار عالمی اعداد و شمار اور اشاریے یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ مرض کم ہونے کے بجائےبڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس کے برعکس بیشتر مغربی اور ترقی یافتہ مشرقی ممالک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی میدان دیانت داری بڑھتی جا رہی ہے، اور کرپشن جیسے مسائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں اعشاریے اور “انڈی کیٹرز” بتا رہے ہیں کہ اس میدان میں دن بدن صورت حال پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔ پرانی نسل کی نسبت نئی نسل کم نہیں بلکہ زیادہ سچ بولتی ہے۔ کرپشن دن بدن کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ رشوت و سفارش کے رجحانات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ معاشرے کے روزمرہ کے لین دین اور معاملات میں دیانت داری بڑھ رہی ہے۔ سماج میں شہریوں کے درمیان ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد بڑھ رہا ہے۔
اس صورت حال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک ہی طرح کے عہد میں زندہ رہنے کے باوجود دنیا کا بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے، اور ہمارا نشیب کی طرف سفر جاری ہے۔ یہ صورت حال غور و فکر کی متقاضی ہے۔ اور اس غور و فکر سے بہت سارے ایسے عنصر سامنے آتے ہیں، جو اس ترقی اور تنزلی کی وجوہات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں چیز یہ ہے کہ ہمارے ہاں واعظ و نصیحت اور تلقین عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہم اکثر و اوقات دوسروں کو جس چیز کی نصیحت کرتے رہتے ہیں، خود اس پر عمل کرنے سے کتراتے ہیں ۔ ہم نے سچائی کو بطور قدر سماج میں قبول نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہم سچ و جھوٹ کے بارے میں نظریہ ضرورت کے اصولوں کے پیروکار ہیں۔
ہم سچ بولنے، سچ سننے کے بارے میں اتنے حساس نہیں ہیں ۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ ہم سچ اور جھوٹ کو سزا اور جزا کے تناظر دیکھتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے انتخاب نفع اور نقصان کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمیں عام طور پر بچوں کے سامنے جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ روز مرہ کے معاملات میں ان کو بھی جھوٹ بولنے پر مجبور کرنے میں شرمندگی نہیں ہوتی۔ جبکہ بیشتر کامیاب معاشروں میں بچوں کے سامنے جھوٹ بولنا، یا بچوں کو جھوٹ بولنے کا کہنا ایک سنگین اخلاقی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اور بچوں کو بہت ہی کم عمری میں گھروں اور سکولوں میں سچ بولنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ والدین اور اساتذہ اس معاملے میں غیر معمولی احتیاط اور احساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے بہت چھوٹی عمر میں ہی سچ کو ایک قدر کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ وہ کسی جزا، سزا ، خوف یا لالچ کے بغیر سچ کو ایک اچھی قدر اور جھوٹ کو ایک بری اور قابل نفرت قدر کے طور پر اپنا لیتے ہیں۔
اس طرح کی کردار سازی کے اثرات بعد ازاں زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں رشوت، سفارش، بد دیانتی اور دھوکہ دہی کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ اکثر سماج میں بچوں کو ڈرا کر سچ بولنے کی تاکید نہیں کی جاتی۔ ان کو کسی بڑے انعام و اکرام کی لالچ بھی نہیں دی جاتی۔ اس کے برعکس ” بلیک اور وائیٹ ” انداز میں ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے، اور سچ بولنا اچھی بات ہے۔ اس طرح کردار سازی کا یہ عمل خوف اور لالچ کے بغیر مکمل کیا جاتا ہے۔ اس طرح سچ اور جھوٹ ایک اچھی اور بری قدر کے طور پر سماجی اخلاقیات کا لازمی جزو بن جاتا ہے، جو خود کار طریقے سے نئی نسلوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔
حال ہی میں اس موضوع پر میں نے ایک دلچسپ تحقیقاتی رپورٹ دیکھی ہے۔ اس رپورٹ میں دیانت داری کے حوالے سے اٹلی اور سویڈن کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کی دیانت داری اور بھروسے کے حوالے سے شہرت میں کافی فرق ہے۔ رپورٹ میں دونوں ممالک کی شہریوں کی طرف سے ٹیکس کی کی ادائیگی اور چوری کی عادات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جس قسم کے سماج میں ہم رہتے ہیں، وہ ہماری بدیانتی پر براہ راست اثر رکھتا ہے۔ زیادہ کرپٹ سماج سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں بدیانتی کے رجحانات زیادہ ہوتے ہیں۔ گویا سماج میں اگر حکومتی عہدے دار اور سرکاری اہل کار کرپشن میں ملوث ہوں، رشوت،سفارش، دھونس اور دھاندلی عام ہو تو محض واعظ و نصیحت سے اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اس کے لیے نظام بدلنے اور سماجی و معاشی انصاف کے لیے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔
♠