لیاقت علی
بھارت دشمنی کے معمارجناح اورلیاقت علی خان تھے۔اوراس دشمنی کو نئی بلندیوں تک اس دور کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے پہنچایا تھا جنھوں نے کشمیر بارے حد سے زیادہ جذباتی فضا پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیاتھا۔ لیاقت علی خان کا پاکستان میں کوئی حلقہ انتخاب نہیں تھا اس لئے وہ جہاں صوبائی قیادتوں کو باہم لڑوا کراقتدارپر قبضہ برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے تھے اس کے ساتھ ہی وہ بھارت کے ساتھ دشمنی کے بہت بڑے داعی تھے ۔مقصد اس دشمنی پالنے کا یہ تھا کہ عوام ان کے طرز حکومت پر انگلی نہ اٹھائے اور اپنے مسائل کا ذمہ بھارت کو سمجھے اور ان کی غیر جمہوری پالیسیوں میں ان کا ساتھ دے۔۔ہمارے ہاں ہر سیاسی لیڈر نے بھارت دشمنی کا پرچم بلند کیا ہے۔
بھٹو نے 1970 کی اپنی پنجاب میں الیکشن مہم کشمیر دشمنی کے ارد گرد چلائی تھی۔ وہ تاشقند معاہدے کو پاکستان کے مفادات سے غداری کہتے تھے لیکن جب خود برسر اقتدار آئے تو شملہ معاہدہ کرلیا۔ اس وقت کی اپوزیشن نے اس معاہدے کو ملکی مفادات سے غداری قرار دیا تھا حالانکہ اس وقت کے معروضی حالات میں وہ بہترین معاہدہ تھا ۔یہ شملہ معاہدہ ہی تھا جس کی بدولت ہمارے جنگی قیدی بھارت سے رہا ہوکر واپس پاکستان آئے تھے۔جنرل ضیا قومی اتحاد کی جس ایجی ٹیشن کی بدولت برسر اقتدار آئے تھے وہ بھٹو کو بھارت کا دوست اور ساتھی ہونے کا طعنہ دیتی تھی۔ لیکن جنرل ضیا خود بھارت سے ہر قیمت پر دوستی کے خواہاں تھے اور راجیو گاندھی سے ملاقات کو کرکٹ ڈپلومیسی قرار دیتے تھے۔
نوازشریف الزام لگاتے تھے کہ بے نظیر بھارت کی دوست ہیں اور ان کے وزیر داخلہ اعتزازاحسن نے بھارت کو خالصتانی سکھوں کی فہرستیں دے دی ہیں۔ لیکن خود نواز شریف نے برسر اقتدار آکر بھارت کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی بھرپور اور سنجیدہ کوششیں کیں جن سے ناراض ہوکر جنرل مشرف اور ان کے کچھ ساتھیوں نے کارگل کا مس ایڈونچر کیا اور بڑی بری شکست سے دوچار ہوئے۔ خود کارگل کے معمار جنرل مشرف جب برسراقتدار آئے تو انھوں نے آگرہ سمٹ میں کشمیر پر آوٹ آف دی باکس سمجھوتہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس کے ساتھ جنرلز نے ان کی یہ کوشش سبوتاژ کردی تھی۔
سنہ2008 میں جب زرداری نے بھارت سے تعلقات ٹھیک کرنے کی طرف قدم بڑھایا تو ممبئی دہشت گرد حملے کرادیئے گئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات ہماری سیاست کا ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس سے وہ ایک دوسرے کی سیاسی پٹائی کرتے اور عوام کے مفادات کو پس پشت ڈال کر عسکری اشرافیہ کی خواہشات اور مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ خود عمران خان نواز شریف کو بھارت دوستی کے طعنے دیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ کہتے تھے کہ نواز شریف کے بھارت کے ساتھ معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں اس لئے وہ بھارت سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ بھارت کے حوالے سے نواز شریف پربہت زیا دہ کیچڑ اچھالا گیااور ان کی کوششوں کو جو عوام کے بہترین مفاد میں تھیں ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
اب وہی عمران خان جو کہتا تھا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا بھارت سے کسی قسم کا تعلق نہیں بن سکتا اور تجارت اس کا تو سوال ہی پیدا ہوتا۔ اب کشمیر کا وکیل بھارت کے ساتھ تجارت کا بروکر بن گیا ہے۔
آخر ایسا کیوں کر ہوا ہے اوراس کی کیا وجہ ہے کہ کشمیرکشمیر کی رٹ لگانے والا عمران خان اپنے قلم سے بھارت سے تجارت کی سمری پردستخط کرتاہے؟دراصل پاکستان جس معاشی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ اس میں سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے علاقائی تجارت اورعلاقائی معاشی روابط ۔اس کے بغیرپاکستان کے معاشی مسائل کا کوئی اورحل ممکن نہیں ہے۔علاقائی معاشی تعلقات اورعلاقائی تجارت عوام کے لئے جو ریلیف لے کرآئے گی وہی پاکستان کے استحکام اورسالمیت کا موجب بنے گا اس کو فوجوں اور ایٹم بم کے بل بوتے پرمحفوظ نہیں بنایاجاسکتا اس کا تجربہ گذشتہ بہتر سالوں سے ہوچکا ہے اور یہ تجربہ ہرموقع پر ناکام ہوا ہے۔
♥