بیرسٹرحمید باشانی
ماحولیاتی تحفظ ہمارے عہد کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت دنیا کے ہر سنجیدہ فورم پرزیر بحث ہے۔ امریکہ اپریل میں ماحولیات پرایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے۔ یہ ” ورچول” کانفرنس ہو گی۔ کانفرنس میں دنیا کے چالیس ممالک مدعو ہیں۔ ان میں پاکستان شامل نہیں ہے۔پاکستان میں اس پر شدید رد عمل ہوا ہے۔ رد عمل کا لب لباب یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو مدعو نہ کر کہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کی پاکستانی کوششوں کو عالمی سطح پر نظر انداز کردیا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی پر22 اور 23 اپریل کے اس “آن لائن “عالمی سربراہی اجلاس میں امریکی صدر جوبائیڈن نے 40 ملکوں کے سربراہان کو دعوت نامے ارسال کئے ہیں۔ان میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سمیت دنیا کے کئی رہنما شامل ہیں۔ واشنگٹن کو امید ہے کہ اس اجلاس سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی سے متعلق کاوشوں کو ایک واضح سمت ملے گی۔ اور ان کاوشوں میں تیزی پیدا ہو گی۔ روس اور چین کے سربراہوں کےعلاوہ جو بائیڈن نے جرمن چانسلر میرکل، فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظم سمیت سعودی عرب، بھارت، اور ترکی کے رہنمائوں کو سربراہی اجلاس میں مدعو کیا ہے۔
بہت سارے لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ اس اہم اجلاس میں پاکستان کو دعوت نہیں دی گئی۔ سرکاری رد عمل میں پاکستان نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی عصر حاضر کا بڑا چیلنج ہے، جس کا مقابلہ سب کی شمولیت، تعاون اور دور اندیش پالیسیوں کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی جنگ میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کے لئے پوری طرح پرعزم ہے ۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کا عزم اور اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کی قیادت کو پوری دنیا میں اچھی طرح سے تسلیم کیا اور سراہا گیا ہے ۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی میزبانی میں ان ممالک کو دعوت دی گئی ہے، جو 80 فیصد عالمی آلودگی کا سبب ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان، موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ پہلے 10 ممالک میں شامل ہے۔ اور پاکستان دنیا میں کم ترین آلودگی پھیلانے والا ملک ہے ۔ ماحولیات پر پاکستان کی کرکردگی کا زکر کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ حکومت کے “بلین ٹری سونامی “اقدام کو عالمی اقتصادی فورم سمیت بین الاقوامی پذیرائی ملی۔
پاکستان، اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائےماحولیاتی تغیر کا نائب صدر ہے ۔ پاکستان اربوں ڈالرز کے گرین کلائیمٹ فنڈ کا شریک چیئرمین ہے ۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے دعوت نہ ملنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ان دو کیٹگریز میں شامل نہیں، جس کے تحت دوسرے ممالک کو شامل کیا گیا ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان ماحولیاتی تباہی سے متاثرہ پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ یہ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف ایسے اقدامات بھی کررہا ہے، جن کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ اور یہ کم از کم آلودگی پھیلانے والے ممالک میں بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر اجتماعی کوشش کے اس اہم عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔ ترجمانوں نے ایک ہی سانس میں پاکستان کے وہ احسن اقدامات گنوائے ہیں، جن کی روشنی میں وہ اس اجلاس میں شرکت کا اہل تھا۔ اور ان وہ وجوہات بھی بتانے کی کوشش کی جن کی وجہ سے مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ وجوہات وہ دو” کٹیگریز” ہیں جن کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
بہر کیف یہ کانفرنس کئی حوالوں سے اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ جو بائیڈن کے دور میں اس نوعیت اور سطح کی پہلی عالمی کانفرنس ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے ، جب امریکہ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے پیرس معائدے کا دوبارہ حصہ بنا ہے۔ اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ یہ کانفرنس نومبر میں گلاسکو میں منعقد ہونے والی ماحولیات پر اقوام متحدہ کی کانفرنس سے پہلے ایک اہم ترین اور سنگ میل کانفرنس ہے۔ سب سے بڑے بات یہ ہے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے حوالے سے یہ کانفرنس اس لیے بہت اہم ہے کہ وائیٹ ہاؤس کے مطابق اس کانفرنس کا نقطہ ماسکہ اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ماحولیاتی تحفظ کی پالیسی کے ذریعے کس طرح دنیا میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر غور کیا جائے گا۔ اور اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اس سلسلے میں کمزور ممالک کی کس طرح مدد کی جاسکتی ہے۔
سربراہی اجلاس میں دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کی طرف سے دنیا میں زہریلی گیسوں اور ماحولیاتی درجہ حرارت میں کمی کے لیے مشترکہ کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ کمزور اور خطرے سے دو چار ممالک کو ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے بچانے کے لیے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر سے معاشی امداد کے طریقوں پر غور کیا جائے گا۔ اجلاس میں ماحولیاتی تباہی سے متاثرہ ملکوں میں روزی اور روزگار کے مواقعوں کا تحفظ، اور گلوبل سیکورٹی کے مسائل پر بھی غور ہو گا۔ موضوع اور مقاصد کے اعتبار سے ایک ایک انتہائی اہم کانفرنس ہے۔پاکستان جیسے غریب اور وسائل کی شدید کمی کے شکار ممالک کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ چالیس ملکوں کی اس طویل فہرست میں ہر طرح کے چھوٹے بڑے ملک شامل ہیں۔ ان میں ویتنام ، نائجیریا، کینیا، جیمیکا اور ریپبلک آف کانگو اور بھوٹان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان میں وہ ممالک بھی ہیں، جو دنیا میں بہت زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار قراردیے جاتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جن کا اپنا وجود ہی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ اور ایسے ممالک بھی شامل ہیں، جن کی کارکردگی ماحولیاتی تحفظ کے باب میں اچھی نہیں ہے، اور وہ بھی ہیں، جو اس میدان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان گزشتہ کئی سالوں سے ماحولیات کے مسائل پر گہری دلچسبی لیتے رہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے مسلسل اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اور اس سلسلے دنیا کی شراکت داری سے ماحولیاتی تباہی سے بچاو کے لیے کام کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کرتے رہے ہیں۔دلچسب بات یہ ہے کہ جنوری میں عمران خان نےامریکی صدر جو بائیڈن کو مبارک باد کا جو ٹویٹ کیا تھا اس میں ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو اولیت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے معاشی شراکت داری، علاقائی اور عالمی امن کے قیام کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کھلا اظہار کیا تھا۔ اس سال فروری میں دورہ سری لنکا کہ دوران تو انہوں نے چین اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کر دی تھی۔ کولمبو میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ “پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے۔ کوئی پچاس سال پہلے یہ پاکستان تھا، جس نے چین کو امریکہ کے لیے کھولا تھا۔ یہ پاکستان تھا جس نے ہنری کسنجر اور چینی لیڈروں کے درمیان ملاقات کا بندوبست کیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ” ۔
وزیر اعظم عمران خان کی ان کوششوں اور تقاریر کے باوجود پاکستان کا اس کانفرنس سے باہر ہونا عالمی سفارت کاری میں ناکامی اور تنہا رہ جانے کی واضح دلیل ہے۔ پاکستان پہلے ہی کشمیر کے سفارتی محاذپر اس سے ملتی جلتی صورت حال سامنا کرچکا ہے۔ یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے لحمہ فکریہ ہے، جو فرسودہ اور بانجھ خارجہ پالیسی کے سحر میں گرفتار ہیں، اور پرانی پالیسی سے نئے نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔
♣