منیر سامی
ہم اس تحریر کے شروع ہی میں واضح کردیں کہ ہم نے عنوان میں ’رنڈیاں ‘ کا نا مناسب لفظ، نقلِ کفر ، کفر نباشد ، کے تحت استعمال کیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک اخبار، اُمّت ، نے ایک شہہ سرخی یوں لگائی: ’چودہ ملکوں میں سب سے زیادہ عورتوں سے زیادتی ہوتی ہے۔ امریکہ ، جاپان، سوئیڈن ،جنوبی افریقہ ، بھارت، بنگلہ دیش ، اور افریقی ممالک شامل ہیں۔ عورت مارچ کی رنڈیوں کو یہ غیر مسلم ملک نظر نہیں آتے۔‘‘ اس جریدہ اور اس خبر کے لکھنے والے کے تعصب کی بات آگے بڑھ کر ہوگی۔ لیکن یہاں صرف یہ اشارہ کردیں کہ بنگلہ دیش دنیا میں بلحاظِ آبادی مسلمانوں کا چوتھا بڑا ملک ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد ، اکیانوے فی صد ہے۔ اسے غیر مسلم ملکوں میں شامل کر کے اس اخبار نے جس بے خبری کا ثبوت دیا ہے، اس پر ناطقہ سربگریباں ہی ہو سکتا ہے۔
اسی شہہ سرخی کے تحت اخبار اپنے نزدیک مسلمانوں کے ماضی کی کچھ آبرومند خواتین کا موازنہ، پاکستان کی خواتین کے کچھ گروہوں سے اس طرح کرتا ہے: ’لیکن آج ہماری بہنوں او ربچیوں کا رول ماڈل کسے بنایا جارہا ہے؟ مریم نواز؟ بے نظیر؟فلم اور ٹی وی پروگراموں کی رنڈیاں؟ چند ڈالر پر بک جانے والی ٹی وی اینکر؟یا پی ٹی آئی کی رقاصائیں ؟زمین وآسمان کا فرق ہے۔ آج کی لیڈیا ں ہمای ماں بہنوں کو کیا سکھائیں گی؟ عورت مارچ؟ ویلنٹائین ڈے؟‘‘۔
آگے چل کر اخبار اپنے طور پر ان ممالک کا ذکر کرتا ہے جہاں خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ کسی غیر معروف جریدے ، بزنس اسٹینڈرڈ کا حوالہ دیتے ہیں۔ عورت مارچ کے بارے میں بد زبانی کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ، دنیا بھر میں عورت مارچ ، امریکہ ہی سے شروع ہوا تھا ، جو جلد ہی ساری دنیا میں پھیل گیا ۔ یہ عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ان مغربی ملکوں میں بھی منایا جاتا ہے جن کا ذکر اس اخبار نے اپنی شہہ سرخی میں کیا۔ ان میں جنوبی افریقہ بھی شامل ہے۔ اس اخبار کو خبر ہوتی تو ذکر کرتا کہ جنوبی افریقہ وہ ملک ہے جہاں کی دلیر عورتوں نے سنہ 56 میں آزادی کا اور نسل پرستی کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس اخبار نے غلط بیانی اور جھوٹی بات پھیلانے کے شوق میں اپنی شہہ سرخی میں صرف زنا بالجبر کا ذکر کیا۔ گویا پاکستان میں عورت مارچ کرنے والی بہادر خواتین صرف زنا بالجبر کی بات کرتی ہیں۔ اس کا حقیقت سے مطلق تعلق نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مارچ کرکے پاکستانی خواتین ایک جانب تو ہر ملک کی عورت کے ساتھ یکجہتی کا اظیار کرتی ہیں ، اور ان کے دکھ میں شریک ہوتی ہیں، تو دوسری جانب وہ اس موقع پر پاکستان کی ہر عورت کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ ان کا ہر مطالبہ بر حق ہے۔ بعض عزیز دوست پاکستان میں عورت مارچ کے موقع پر لگائے گئے نعروں اور بعض پوسٹروں سے نا خوش نظر آتے ہیں۔ ان کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ اس مارچ کا ہر نعرہ مکمل طوع پر کچلی ہوئی پاکستانی عورت کے جذبات کا فوری اظہار ہے۔ یہ مارچ ایک ارتقائی عمل ہے۔ جیسے جیسے بات آگے بڑھے گی، وہ نعرے اور وہ پوسٹرز سامنے آئیں گے جو معروضی بھی ہوں گے اور جو حق کے مطالبہ کو بہتر طور پر پیش کریں گے۔ ہمیں اس ضمن میں صبر کی ضرورت ہے۔
اب ہم یہ سمجھنے کہ کوشش کریں گے کہ ’امت ‘ نامی اس اخبار نے جس کی امت تک مکمل رسائی بھی نہیں ہے ، اپنی سرخی اور اپنی خبر میں بد زبانی کیوں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ تعصب اس اخبار کے بانیوں کے خمیر میں گندھا ہو ا ہے۔ اس کے بانیوں میں ، عبدالرفیق افغان، سعدیہ صلاح الدین، اور نصیر ہاشمی کے نام شمار کیے جاتے ہیں۔
عبدالرفیق اٖفغان کا تعلق پاکستان کی اسلامی شدت پرست جماعت کی ذیلی تنظیم ، اسلامی جمیعت طلبا سے تھا، وہ سنہ اسی دہائی کی دہائی میں سامنے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تربیت صلا ح الدین صاحب نے کی جو ،انتہائی دائیں بازوکے شدت پرست اخبار ، جسارت کے ایڈیٹر تھے، اور بعد میں انہوں نے اپنا جریدہ تکبیر جاری کیا۔ عبدالرفیق افغان اسلامی جہاد کے حمایتی تھے، بالخصوص روس کے خلاف طالبان کی جنگ کے ۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے افغان جہاد میں بھی حصہ لیا تھا۔ وہ مولانا صلاح الدین کے قریبی تعلق کی وجہ سے تکبیر کی انتظامیہ میں شامل کیے گئے تھے۔ صلاح الدین کے قتل کے بعد ان پر اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا۔ اور تکبیر کے سینیر اسٹاف نے انہیں تکبیر سے نکال دیا تھا۔
سعدیہ صلاح الدین، تکبیر کے مقتول مدیر ، صلاح الدین صاحب کی صاحبزادی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ عبدالرفیق افغان کی بیگم بھی ہیں۔ صلاح الدین کے قتل کے بعد ان میں اور عبدالرفیق اٖفغان میں کچھ عرصہ کے لیئے ناراضگی او ر علیحدگی ہو گئی تھی۔ بعد میں آئی ایس آئی کے سابق جنرل حمید گُل نے ان میں صلح کروادی۔ اس کے بعد رفیق افغان دوبارہ ہفت روزہ تکبیر سے منسلک ہو گئے۔امت کے تیسرے اہم بنیادی رکن نصیر ہاشمی تھے۔ وہ بھی صلاح الدین کے تربیت یافتہ اور قریبی جانے جاتے تھے۔ اور جنگ اخبار میں کام کرتے تھے۔ جنگ اخبار سے فارغ ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ سعودی اخبار عرب نیوز کے ذیلی اخبار اردو نیوز سے منسلک رہے ۔ وہ امت کے بانی مدیروں میں شامل تھے۔
اب تک کی معروضات سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ امت دائیں بازو کا ایک شدت پرست جریدہ ہے۔ اس کے افراد کا تعلق جماعت اسلامی کی قدامت پرست فکر سے ہے۔ سو ان کے تعصبات بھی اسی طرح کہ ہیں۔ اس فکر کے تحت خواتین مذہبی طور پر دوسرے درجہ کی شہری ہیں۔ خواتین کی آزادی کا کوئی بھی نظریہ ان کی فکر سے لگا نہیں کھاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ارتقا ،یہ بھی ہے کہ ، مولانا صلاح الدین ، الطاف حسین قریشی جیسے دائیں بازو کے صحافیو ں کے بعد سے دایئں بازو کے صحافیوں کی زبان لچر سے لچر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی مثال انصار عباسی، اور اوریا مقبول جان جیسے صحافیوں کی ہے جن کا اپنے مخالفین اور خواتین کے لیئے ، ہر بیانیہ توہین آمیز اور مغلظات پر مبنی ہوتاہے۔ خواتین کے بارے میں لچر انداز ہونے میں انہیں ہماری خواتین کی قدامت پرستانہ اور تابعدارانہ ذہنیت بھی مددگار ہوتی ہے۔۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی پچاسی خواتین اپنے اوپر زیادتی اور حق تلفی کی شاکی تو ہیں، لیکن ان ہی خواتین میں سے بیالیس فی صد سے زیادہ خواتین پنے اوپر ہونے والے ظلم کو جائز اور مردوں کا حق سمجھتی ہیں۔
ایسی صورت کا مقابلہ صرف یوں ہو سکتا ہے کہ ہماری خواتین جن میں عورت مارچ میں شریک عمل پرست بھی شامل ہیں اپنی جدو جہد اور بھی تیز کر دیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ، ’ ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی۔ ہاں اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے۔ ‘‘ امت جیسے اخبار جیسے بھی مغلظات استعمال کریں وہ جانتے ہیں کہ خواتین کی جدو جہد کا قافلہ آگے ہی بڑھتا رہے گا۔ ہم سب اسی قافلہ میں شریک ہیں۔ چلتے چلتے ہم یہ بھی کہتے چلیں کہ آپ سب کو آج کل جاری ایک پاکستانی ڈرامہ ، ’دل ناامید تو نہیں ‘ ضرور دیکھنا چاہیے جو معاشرہ میں خواتین اور بچوں پر ظلم کو نہایت مہارت سے پیش کر رہا ہے، اور اسے قدم قدم پر سنسر شپ کا سامنا ہے۔
♥
One Comment