حسن مجتبیٰ
واشنگٹن میں یہ عجب شام تھی جب میں اس کی ٹیکسی میں بیٹھا۔ مسافر نشست پر بیٹھتے ہوئے اس کے ڈیش بورڈ پر لگے اس چھوٹے سے پرچم پر نظر پڑی جو سبز رنگ کا تھا۔ میں نے دنیا کے جھنڈوں میں کبھی ایسا جھنڈا نہیں دیکھا تھا جس پر ایک درخت کا پتہ بنا ہو اور پرچم پر انگریزی میں چار الفاظ لکھے تھے۔ امن، محبت، اتحاد اور اور عزت۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا یہ کس ملک یا پارٹی کا جھنڈا ہے؟ ’’کسی بھی ملک یا پارٹی کا نہیں‘‘ نوجوان ڈرائیور نے جواب میں کہا۔ پھر اس نے کہا: ’’یہ میرا جھنڈا ہے۔ امن کا جھنڈا، محبت کا جھنڈا‘‘ مجھے نہایت حیرانی ہوئی۔ وہ نوجوان ڈرائیور الٹا مجھ سے ہی پوچھ رہا تھا۔ تم ہی بتاؤ دنیا میں امن، محبت، ایک دوسرے کی تکریم اور اتحاد کی کتنی ضرورت ہے؟ یہ دنیا نفرت سے بھری ہے دوست۔ جب سے اس ملک میں ٹرمپ آیا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا میں نے کبھی ایسا ٹیکسی ڈرائیور نہیں دیکھا۔
میرے پوچھنے پر اس نے مجھے بتایا کہ اس کا تعلق ’’ایتھوپیا‘‘ سے ہے اور وہ چند سال قبل امریکہ آیا تھا۔
’’اوہ تو تم شیر بادشاہ‘‘ کے ملک کے ہو۔ مجھے نہ جانے کیوں اب بھی ’’ہیل سلاسی‘‘ یاد آیا۔ ہیل سلاسی افریقی قوم پرستی کی علامت۔ اس کے ملک کے لوگ اس سے محبت کرتے تھے۔ وہ اس لئے کہ ہیل سلاسی سینئر نے انیس سو تیس کی دہائی میں ایتھوپیا پر اطالوی قبضے کی مزاحمت کر کے اپنا وطن پھر واپس لیا تھا۔
ہیل سلاسی اور اسکے شیر کی کھال والے لباس اور چوغے، اس کی نارنجی لال کالے رنگوں کی اونی ٹوپی کو انیس سو ستر میں جمیکا کے عظیم فنکار بوب مارلے نے متعارف کروایا۔ جب ساری دنیا میں گوریلا جنگوں، فوجی بغاوتوں، اور انقلاب شب خون کے ذریعے تبدیلیاں ہو رہی تھیں تو باب مورلے جس کا تعلق کیریبین جزیرے میں جمیکا سے تھا گیتوں کے ذریعے انقلاب لا رہا تھا:
بفیلو سولجر ان دی ہارٹ ان امریکہ
اس عظیم فنکار کے گیت لوگوں کے دلوں کو گرما رہےتھے۔
تمہیں پتہ ہے امریکہ میں ایتھو پیا کا سفیر کون تھا ہیل سلاسی کے وقت میں؟
بوب مارلے۔ میں نے کہا
ابھی کچھ دن ہوئے کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں آٹھ لاکھ ہائی اسکول کےبچے اور بچیاں امریکی اسکولوں میں بندوق بازوں کے حملوں اور بندوق کی ثقافت کے خلاف کیپٹل ہل کے ارد گرد جمع ہوئے تھے۔
اسکولوں کالجوں پر بندوق بازوں کا تشدد اور حملے امریکی دل پر لگنے والی گولی ہے۔
امن، محبت، تکریم اور اتحاد میں نے پھر اسی جھنڈے پر نظر ڈالی۔
کیا تم مجھے یہ جھنڈا دے سکتے ہو؟
اس نوجوان ٹیکسی ڈرائیور نے وہ جھنڈا مجھے دے دیا۔
مجھے ایتھوپیا کے نوجوان ٹیکسی ڈرائیور کی ٹیکسی میں بیٹھے یہ جھنڈا دور بہت دور لے گیا۔ ایتھو پیا۔ ملک حبش۔ جہاں کے قدیم مقدس کتاب میں آئے ہوئے ’’جاہ یا جوڈا کے شیر کو‘‘ ہیل سلاسی نے خود سے تعبیر کیا تھا۔ بھوک افلاس۔ مجھے مردہ شاہوں کے مقابر سے بولنے کا کوئی شوق نہیں لیکن یونہی، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔
قحط سالی آخر کار اس ملک میں فوجی بغاوت لے آئی جسے ’’انقلاب‘‘ کہا گیا۔ کرنل ہیل میریم منگستو۔ ایک کمیونسٹ آپیشاہ۔
ہو سکتا ہے تم اس ننھے سے ہرے پرچم اور اس پر لکھے محبت ،تکریم اور اتحاد کے نعروں کو معمولی لوگوں کی معمولی بات سمجھتے ہو۔ لیکن نہ وہ ٹیکسی ڈرائیور معمولی تھا اور نہ ہی اس کا پرچم جو اس نے اٹھایا ہوا تھا۔ اب وہ اس نے مجھے دے دیا۔
’’کبھی کبھی میری انگلیاں اس سے جلنے لگتی ہیں اور مجھے لگتا ہے یہ میری انگلیوں کو جلا دے گا۔‘‘ یہ جملہ تب فلوریڈا میں رہنے والے بوب مارلے نے اس سے ملنے کو آنے والی ہیل سلاسی کی پوتی سے کہا تھا۔ اس انگوٹھی کے حوالے سے جو اسے ہیل سلاسی نے دی تھی جس پر جوڈا کا شیر بنا ہوا تھا۔
تو پس عزیزو کبھی کبھی میری انگلیاں بھی حدت محسوس کرتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ نہ لکھا تو انگلیاں جل جائیں گی۔ لیکن یہ ننھا پرچم ان پر اور دنیا میں جلتی نفرت کی آگ پر پانی ڈال سکتا ہے۔ وہ نفرت جو اتنے ہی ننھے پرچم جیسی ملالہ یوسفزئی کے خلاف پچھلے دنوں ہم نے دکھائی۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے سوات میں طالبان ہیں کہ نہیں۔ اب توہر ذہن سے طالبان نکلے گا۔ ہر جگہ بیٹھا ہوا ہے۔ کئی لیڈروں کے روپ میں تو کئی ٹی وی چینلوں پر ،تمہیں پتہ ہے ؟ وہ اک عجب شام تھی۔ عجب ٹیکسی ڈرائیور تھا۔
♠
One Comment