بیرسٹرحمید باشانی
ارباب اختیاراورآئی ایم ایف کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو یقین دلا دیا گیا کہ عوام پرآئندہ مالی سال میں ٹیکسوں کا اضافی بوجھ دال دیا جائے گا۔ یہ اضافی بوجھ 1272 ارب کی خطیر رقم ہوگی۔ عام آدمی کو اگر کوئی چھوٹی موٹی آسانیاں میسر ہیں تو وہ چھین لی جائیں گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اشیا سے ٹیکس کا استشنی ختم کردیا جائےگا، ان میں کھانے پینے کی اشیا، ادویات، اور تعلیم سر فہرست ہو گی۔
گویاپہلے سے ہی بھوک و ننگ کے شکار عوام کے لیے دو وقت کی روٹی بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ ادویات اس کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ اور بچوں کی تعلیم غریب کے لیے محض خواب بن کے رہ جائے گا۔ آئی ایم ایف اور حکومت کے اس سمجھوتے پر بحث ہو رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ دانشور اسے اچھی خبر اور ترقی و خوشحالی کی نوید قرار دے رہے ہیں۔ سیمینار اور فورم منعقد ہو رہے ہیں، جس میں ارباب اختیار کی دانش اور آئی ایم ایف کی سخاوت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ نایاب لمحے ہوتے ہیں جب عشق بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے، اور عقل کے پاس محو تماشا رہ جانے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔
آئی ایم ایف کوئی خفیہ ادارہ نہیں، جس کے لیے تحقیق یا قیاس آرائیوں کی ضرورت پڑے۔ یہ ایک معروف مالیاتی ادارہ ہے، جس کا تحریری آئین و منشورہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں “نیامالیاتی آرڈر” قائم کرنے کے لئے 1944 میں بریٹن ووڈز کانفرنس میں چالیس اتحادی ممالک کے اجلاس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی تشکیل ہوئی۔ یہ عالمی مالیاتی ادارہ اپنے قیام سے لے کر اب تک مختلف شکلوں میں دنیا کے مالیاتی نظام کی “داروغگی” کا کردار ادا کر رہا ہے۔
سادہ زبان میں اس فنڈ کا اہم ترین اور بنیادی کام ضرورت مند ممالک کو قرض دینا ہے۔ یہ فنڈ ان ممبر ممالک کو قرض دیتا ہے، جو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہوتے ہیں۔ قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف کی مخصوص شرائط ہوتی ہیں۔ ان شرائط کو قبول اور نافذ کرنے کے بدلے میں قرضے اور “بیل آوٹ” فراہم کی جاتی ہیں۔ ان پالیسیوں میں بجٹ کو متوازن بنانا ، ریاستی سبسڈی کو ہٹانا ، ریاستی کاروباری اداروں کی نجکاری ، تجارت اور کرنسی کی پالیسی کو آزاد کرنا ، اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور سرمائے کی نقل و حرکت میں رکاوٹوں کو دور کرنا شامل ہے۔
کوئی ملک عام طور پر اس وقت آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرتا ہے، جب وہ معاشی مسائل اور زر مبادلہ کی کمی کی وجہ سے مزید درآمدات نہیں کرسکتا، یا قرض دہندگان کے لئے اپنے قرض کی ادائیگی سے قاصرہو تا ہے ۔ یہ کیفیت کسی بھی ملک میں ممکنہ معاشی بحران کی علامت ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ فنڈ حکومت کے قرضوں میں توسیع کرتا ہے۔ اور قرضوں کی ادائیگی کے نئے نظام الاوقات کا انتظام کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس امداد کےبدلے میں ممبرملک ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بحال کرنے کے لئے آئی ایم ایف اصلاحات کو نافذ کرنے پر اتفاق کرتا ہے۔ فنڈ کی قرض دینے کی شرائط نہ صرف قرضوں کی واپس ادائیگی کی ضمانت کے لئے بنائی گئی ہیں، بلکہ یہ یقینی بنانے کے لئے بھی ہیں کہ قرض لیا گیا پیسہ بیان کردہ معاشی مقاصد کے مطابق ہی خرچ ہوگا۔
آئی ایم ایف اپنی تشکیل سے لیکر ہی زبردست تنقید کانشانہ رہا ہے۔ بعض حلقوں میں اس کو ایسا ادارہ تصور کیا جاتا رہا، جس کا مقصد عالمی سرمایہ داری نظام کو بحران سے بچانا اور عالمی سامراجی مالیاتی ایجنڈے کا تحفظ کرنا رہا ہے۔ اوراس کا ایک بڑا مقصد عالمی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کو کسی ملک میں معاشی بحران کے وقت ان کے پیسے ڈھوبنے سے بچانےمیں مدد کرنا بھی رہا ہے۔ اپنی کتاب ، “عالمگیریت اور اس کے تضادات” میں ، نوبل پرائز جیتنے والے ماہر معاشیات جوزف اسٹگلیٹز نے اس فنڈ کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں لاگو ہونے والی ناکام ترقیاتی پالیسیوں کا بنیادی مجرم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو بہت ساری معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس کے قرضے کی شرائط تبدیلی کی متقاضی ہیں۔ اس کا بھاری شرح سود ، تجارتی لبرل لائزیشن ، نجکاری ، اور کھلی سرمایہ مارکیٹیں اکثر مقامی لوگوں کے لیے تباہ کن رہی ہیں۔
جوزف کے بعد ولیم ایسٹرلی نے بھی 2006 میں اس ادارے کے بارے میں ” سفید فام آدمی کا بوجھ ” میں یہ مقدمہ پیش کیا ہے۔ اگرچہ وہ 1990 کی دہائی کے وسط میں میکسیکو اور مشرقی ایشیائی ممالک کو درپیش مالی بحرانوں میں آئی ایم ایف کی کچھ کامیابیوں کو تسلیم کرتا ہے ۔ لیکن وہ انتہائی غریب ممالک خصوصا افریقہ اور لاطینی امریکہ میں فنڈ کی بہت سی سرگرمیوں کو ملک کے اندرونی معاملات میں حد سے زیادہ دخل اندازی قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ، اس نے فنڈ کے بہت سارے قرضوں کی شرائط اور تکنیکی مشوروں پر بھی تنقید کی ہے، کیونکہ اس کے خیال میں وہ زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔
حالیہ برسوں میں آئی ایم ایف کے صرف غریب ملکوں میں ہی نہیں، بلکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں کیے گئے کام پر بھی تنقید ہوئی ہے۔ یونان اس کی نمایاں مثال رہا ہے ۔ وہاں کفایت شعاری کے اقدامات نے ملک کا معاشی تنازعہ پہلے سے زیادہ گہرا کردیا تھا۔ جولائی 2015 میں ، عوامی ناراضگی کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرض کی شرائط کے بارے میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام نے “منفی” ووٹ ڈالا تھا، مگر حکومت نے نتائج کو نظرانداز کیا اور قرضوں کو قبول کرلیا۔
ناقدین آئی ایم ایف سے قرض لینے کے عمل کو ہر حالت میں قومی خودمختاری پر سمجھوتا قرار دیتے ہیں۔ اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کی کڑی شرائط کو تسلیم کیے بغیر کوئی ملک قرض لے ہی نہیں سکتا۔ یہ شرائط تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی اہم معاملات پرقانون سازی اور پالیسی سازی کے اختیارات ملکی پارلیمنٹ اور حکومت کو حاصل ہوتے ہیں، ان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اور ان شرائط کو نئی پالیسیوں کی شکل میں عوام پر نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومت اپنے اہم اور بنیادی اختیارات سے فنڈ کے حق میں دست بردار ہوجاتی ہے۔ منتخب لوگ فیصلہ سازی کےباب میں غیر منتخب عالمی ادارے کے ماہرین اور ٹیکنو کریٹس کے سامنے ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ مقروض ممالک کی حکومتیں بے بسی سے دیکھتی ہیں، جب مالیاتی فنڈ ان کے لیے پالیسیاں تشکیل دیتا ہے۔
یہ فنڈ انھیں بتاتا ہے کہ کب ان کے ملک کی کرنسی کی قدر میں اضافہ کیا جائے ؟ اور کس حد تک اضافہ ہونا چاہیے ؟ کن ریاستی وسائل کو بیچنا ہے۔ کیا خریدنا ہے ۔ سرکاری ملکیت میں کیا رکھنا ہے، اور کیا بیچ دینا ہے۔ کتنا خرچ کرنا ہے، اور کس پر کیا خرچ کرنا ہے۔ یہ انھیں بتاتا ہے کہ تجارت کس طرح کرنی ہے۔ ٹیکس کا بوجھ کس پر ڈالنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ارباب اختیار کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی قومی خود ٘مختاری اور معاشی پالیسیوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا ہے۔ ارباب اختیار اور آئی ِ ایف کے درمیان جو اتفاق رائے ہوا ہے، اس کی وجہ سے آنے والے برسوں میں پاکستان میں طبقاتی تقسیم بڑھے گی۔ اور امیر اور غریب کے درمیان پہلے سے موجود خلیج میں خوفناک اضافہ ہوگا۔
♣