تعارف: لیاقت علی ایڈووکیٹ
مفکر، صحافی اورسیاسی کارکن سید سبط حسن، ماہر تعلیم پروفیسرکرارحسین اور مصورعلی امام پاکستان کی ترقی پسند فکرکے اہم ترین نام ہیں۔ یہ تینوں شخصیات ایک ہی عہد سے متعلق تھیں اور انہوں نے پاکستان میں روشن خیالی، سیکولرازم اور عوام کے معاشی، سیاسی اورسماجی حقوق کی تحریک سےعملی اورعلمی تعلق قائم کیا اورتمام ترسماجی اورذاتی مشکلا ت اورمسائل کے باوجود اپنے اس عہد کو ثابت قدمی سے نبھایا۔
سید سبط حسن کی کتابیں آج بھی ترقی پسند فکراورروشن خیالی کو پھیلانے میں اہم اورموثر کردار ادا کررہی ہیں۔ پاکستان کی فکری تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ سیدسبط حسن کےعلمی اورفکری کام کا ذکر نہ کیا جائے۔پروفیسر کرارحسین نے تعلیم کے میدان میں جو خدمات سرانجام دیں وہ آج بھی قابل رشک ہیں۔ علی امام مصور تھے اورا ن کی مصوری کا فوکس عام آدمی تھا۔
زیر نظر کتابچہ:’شناختی بحران۔ پاکستان کے سیاق و سباق میں فکری ارتقا پر ثقافتی اثرات‘ صرف تیس صفحات پرمشتمل ہے۔ یہ مذکورہ تینوں دانشوروں کی وہ تقریریں ہیں جو انھوں نے 1981 میں کراچی میں منعقدہ ہونے والی ماہرین نفسیات کی کانفرنس میں کی تھیں۔ ان تقریروں کو روزنامہ ڈان کے سابق ایڈیٹر سلیم عاصمی نے ٹرانسکرایب کیا ہے۔
یہ تقریریں گو کئی دھائیاں پہلے کی گئی تھیں لیکن اپنے فکری مواد کے اعتبار سے یہ آج بھی اسی طرح موثر ہیں جتنی یہ اُس وقت تھیں۔ یہ تقریریں ہمیں ایک ترقی پسند،روشن خیال اورسیکولر پاکستان کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے فکری اورنظریاتی طورپر آمادہ کرتی ہیں۔ ان تقریروں کا مواد ہمیں آج کے ’نئے پاکستان‘کی سطحیت اوراس کی فکری قدامت سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرتاہے۔
یہ تقریریں جب کی گئی تھیں وہ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کا زمانہ تھا۔ ہر طرف سیاسی اور فکری پابندیوں کا دور دورہ تھا۔ افغان جہاد کا نقارہ بج چکا تھا اور جہادی لشکر جماعت اسلامی کی نظریاتی اورامریکہ کی فوجی سے لیس جوق در جوق عازم افغانستان تھے۔ جبرواستبداد کے اُس ماحول میں کی گئی یہ تقریریں ان تینوں حضرات کی ذہنی اور فکری بالیدگی،کشادگی اورنظریاتی ثابت قدمی کا ثبوت ہیں۔
علی امام کی تقریر کا موضوع پاکستان کا شنا ختی بحران تھا۔ سید سبط حسن نے ثقافت اورفکری ارتقا کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا جب کہ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر اورماہر تعلیم پروفیسر کرار حسین جو صدر جلسہ تھے، نے ان دونوں فاضل مقررین کے خیالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماج کے فکری ارتقا اور نشوو نما میں تعلیم کے کردار پر روشنی ڈالی تھی۔
علی امام نے اپنی تقریر میں سماجی ترقی اور تبدیلی کے لئے مختلف ادوار میں انسان نے جو انقلابی جدوجہد کی اس کی تفصیلات بیان کیں اور اس جدوجہد کے دوران انسان نے آرٹ، ادب،فن تعمیر، مجسمہ سازی کو کس طرح ڈویلپ کیا اس پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ پتھروں اور غاروں میں بنائے گئے نقش و نگار سے انسان کی سماجی ترقی کو جوڑتے ہیں اور نتائج اخذ کرتے ہیں۔ علی امام کہتے ہیں کہ کوئی سماج کتنا ترقی پسند اور روشن خیال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے عہد کی پسماندہ اور رجعتی اقدار کو مسترد کرنے اور ان کے خلاف جدوجہد کرنے کی کتنی قوت وطاقت رکھتا ہے۔ وہی معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں جو جمود کی علم بردار قوتوں کو مسترد کرتے اور روشن خیالی پر مبنی نظریات کو اپناتے ہیں۔
سید سبط حسن کی تقریر کا موضوع فکری ارتقا پر ثقافت کے اثرات تھا۔سبط حسن کہتے ہیں کہ فکری ارتقا اور ثقافت کوئی ایک دوسرے سے علیحدہ مظاہر نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں ان کے نزدیک کسی عہد کا فکری دھارا اپنے عہد کی ثقافت کا ہی حصہ ہوتا ہے۔تینوں مقررین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جب تک مذہب کو ریاست سے علیحدہ نہیں کیا جاتا اور تمام شہریوں کو بلا لحاظ مذہب،رنگ اور نسل مساوی شہری حقوق کی آئینی اور قانونی ضمانت نہیں دی جاتی کوئی سماج مہذب اور کوئی ریاست جمہوری نہیں کہلانے کا دعوی نہیں کرسکتی۔
ان تینوں اہل علم کی تقریروں پر مشتمل یہ کتابچہ پاکستان کی فکری تاریخ کی اہم دستاویز ہے۔ یہ تینوں دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ سیکولرازم سے ہوکر گذرتی ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے ضروی ہے کہ ریاست اور مذہب کو علیحدہ کیا جائے اور پاکستان کے عوام کو مذہب کے نام پر جن ثقافتی اور سماجی جکڑ بندیوں میں جکڑا گیا ہے انھیں ان جکڑ بندیوں سے سے آزاد کرا یا جائے۔
اس کتابچے کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ پاکستان فکری و نظری طور پر آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں یہ چار پانچ چار دہائیاں قبل موجود تھا۔ مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق ہنوز متنازعہ ہے۔ شہریوں کے مساوی آئینی او ر قانوی حقوق کی جدوجہد ابھی جاری ہے اور فکری اور علمی آزادی پر پابندیاں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ کتابچہ پڑھ کر لگتا ہے کہ اس میں شامل تقریریں چار دہائیاں قبل نہیں بلکہ پچھلے ہفتے یا پچھلے مہینے لکھی گئی تھیں اور ان کے مندرجات آج بھی اپنے پڑھنے والوں کو دعوت فکر و عمل دیتے ہیں ۔
♦
سوشل میڈیا کے ایک صارف کاشف حسین سندھو نے اس تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا ان تین اردو اسپیکنگ دانشوروں نے مقامی ثقافت کو توجہ دینے کی بھی بات کی ؟ جو حقیقی مقامی تاریخ و زبان سے جڑی ہے ۔ کیا انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر پاکستان سیکولر ہوا تو اسے قائم رکھنے کا نیا بیانیہ کیا ہو گا ؟ کیونکہ پاکستان مذہب ہی کی بنیاد پہ وجود میں لا یا گیا تھا ۔ اور کیا انہوں نے اس اسلامی مملکت کی وحدانیت کے لیے اپنی زبان اردو کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پہ تنقید یا اس پہ بات کی ؟ اگر نہیں تو میرے نزدیک انکا کہا ہوا کتاب کو درمیان سے پڑھنے کے مترادف ہے۔