ظفر آغا
میرے سامنے 9 اپریل کا انگریزی انڈین ایکسپریس اخبار ہے۔ اخبار کی دوسری سب سے بڑی سرخی ہے ’کاشی وشوناتھ بمقابلہ گیان واپی مسجد‘۔ یہ سرخی اس خبر سے تعلق رکھتی ہے جو وارانسی کی ایک عدالت کے فیصلے کے بارے میں ہے۔ اس عدالت نے آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کرے کہ آیا متنازعہ عمارت (مسجد) کسی عمارت کو گرا کر بنائی گئی ہے، یا یہ کسی عمارت پر کھڑی ہے، یا کسی پہلے سے موجود عمارت کو تبدیل کر کے یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے! کمال تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ اس قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے جو سنہ 1991 میں نافذ ہوا اور جس میں یہ طے کر دیا گیا تھا کہ بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ عبادت گاہیں بالکل ویسی ہی رہیں گی جیسی کہ 15 اگست 1947 کو تھیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
اس قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدالت نے وارانسی کی گیان واپی مسجد کے تعلق سے ایک متنازعہ فیصلہ سنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلم گروہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں جائے گا۔ گو مسلم پرسنل لاء بورڈ ابھی تک تو اس معاملے میں خاموش ہے، لیکن کل کی کسی کو خبر نہیں۔ لکھنؤ سے سنی وقف بورڈ نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرے گا۔ یاد دہانی کے لیے یہ عرض کر دوں کہ یو پی کے سنی اور شیعہ دونوں وقف بورڈ یوگی حکومت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں بی جے پی اور سَنگھ کے موقف کے خلاف سنی وقف بورڈ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کو تیار ہے۔
میں نے ابھی تک جو عرض کیا وہ اس بات کی تمہید تھی کہ سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد سے منہدم جانے سے رام مندر کی تعمیر کے فیصلہ تک ہندو–مسلم خونریزی اور تصادم کی جو داستان ہے، اس کو دہرانے کی پوری تیاری اب بنارس میں ہو گئی ہے۔ اس کہانی میں تمام پلاٹ لگ بھگ وہی ہیں جو بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ میں تھا۔ بابری مسجد رام مندر تنازعہ کا ایک اہم مقصد اس وقت یہ تھا کہ ہر ہندو کے دل میں بھگوان رام کی عقیدت کا جذبہ پیدا کر اس کے ذہن میں یہ خیال پرو دیا جائے کہ رام کی جائے پیدائش سے مسجد نہ ہٹا کر مسلم قوم ہندو عقائد کی توہین کر رہی ہے۔ یعنی پورے تنازعہ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ایک ’ہندو بمقابلہ مسلم‘ جنگ کا سا ماحول پیدا کرنا تھا۔
یہ بات اس وقت تک ممکن نہیں تھی جب تک کہ مسلمانوں کی جانب سے رام مندر تعمیر کی کھل کر مخالفت نہ ہو۔ اس کے لیے ایک مسلم پارٹی درکار تھی۔ اس کے بغیر ہندو جذبات بھڑکنا ممکن نہیں تھے۔ چنانچہ نہ جانے کیسے اور کس کی ایما پر راتوں رات بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل ہو گئی۔ اور دیکھتے دیکھتے وہ بابری مسجد تنازعہ میں مسلم محافظ بن کر کھڑی ہو گئی۔ چونکہ میں مسجد کا تالا کھلنے سے لے کر مسجد گرائے جانے تک پوری سائیکل کا محض چشم دید گواہ ہی نہیں بلکہ اس پورے حادثہ کو بحیثیت صحافی رپورٹ بھی کر چکا ہوں، اس لیے مجھ کو بخوبی یاد ہے کہ اس وقت رام مندر کی حمایت میں وشو ہندو پریشد کے سڑکوں پر اترنے سے قبل بابری مسجد ایکشن کمیٹی سڑکوں پر اتر گئی۔
پہلے مسلمانوں کی جانب سے کمیٹی کے زیر سایہ نعرۂ تکبیر کی صداؤں کی گونج کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی ریلیاں ہوئیں۔ قائدین ملت کی جانب سے اپنے خون کا آخر قطرہ تک بہانے لیکن مسجد کو آنچ نہ آنے دینے کی جذباتی تقریریں ہوئیں۔ مسلمان، خصوصاً ہندی بولنے والی ریاستوں کا مسلمان بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے پرچم تلے اکٹھا ہو گئے۔ سڑکوں پر نعرۂ تکبیر اور رام مندر مخالف تقاریر شروع ہو گئیں۔ اس طویل قصے کو مختصر کرنے کے لیے عرض یہ ہے کہ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے فوراً بعد ہی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے پرچم تلے ایک ہندو مخالف مسلم پلیٹ فارم بن گیا۔
بس جناب وہ بی جے پی جو سنہ 1984 تک لوک سبھا میں محض دو ممبران کی حیثیت کی پارٹی تھی اس کو ہندوستان میں پہلی بار خود کو ایک بڑی پارٹی کے طور پر قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ پوری ہندی بیلٹ میں بھلا رام مندر سے بہتر اور کون سا جذباتی مسئلہ ہو سکتا تھا جس کا استعمال کر بی جے پی ہندوؤں کے دل میں جگہ بناتی۔ جیسا عرض کیا، ایودھیا میں جائے بابری مسجد پر مسلمان رام مندر تعمیر کی مخالفت سڑکوں پر کھلے بندوں پہلے سے کر رہے تھے۔ اب بطور ہندو پارٹی پہلے اس معاملے کی کمان وشو ہندو پریشد نے اپنے ہاتھوں میں لی، اور دیکھتے دیکھتے عدالت سے لے کر سڑکوں تک وشو ہندو پریشد ایودھیا میں رام مندر تعمیر کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اب ایک جانب میدان میں مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد تھی اور نعرہ تکبیر کی صداؤں کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی بڑی ریلیاں تھیں، تو دوسری جانب اس کے جواب میں ’جے شری رام‘ کے جذباتی نعرے کے ساتھ رام مندر کی حمایت میں وشو ہندو پریشد کا کثیر مجمع تھا۔ دونوں کی جانب سے تقریباً آمنے سامنے کی جنگ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دیکھتے دیکھتے صرف ہندی بولنے والی ریاستیں ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان بابری مسجد بمقابلہ رام مندر تنازعہ کی آڑ میں ہندو–مسلم فرقوں میں بٹ گیا۔ دونوں ہی اس قدر جذباتی ہو گئے کہ دونوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے عقائد کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یعنی بٹوارے کے بعد پہلی بار مسلمانوں کے خلاف اس ملک میں ایسا ابال آیا کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ بس اب کیا تھا، جب لوہا پوری طرح گرم ہو گیا تو پھر اس وقت بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی کے کاندھوں پر سوار بھارتیہ جنتا پارٹی نے رام مندر۔بابری مسجد تنازعہ کی کمان اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ اور لال کرشن اڈوانی رتھ پر سوار کم و بیش پورے ہندوستان کا سفر کر کے ایودھیا پہنچے۔ اب وہ ہندوؤں میں کسی بھگوان سے کم باعزت نہیں تھے۔ ادھر مسلمان کا یہ معاملہ تھا کہ آئے دن فساد ہو رہے تھے اور بابری مسجد کے تحفظ کا اعلان کرنے والے قائدین ملت کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ ہاں، ان کے جذباتی بیانات خوب چھپ رہے تھے۔ لب و لباب یہ کہ اس مسجد–مندر تنازعہ کی آڑ میں بی جے پی ایسی ہندو پارٹی بنی کہ آج ان ہی جذبات کا استعمال کر پارٹی اب نریندر مودی کے کاندھوں پر سوار ہندوستان کی مالک ہے۔ ملک باقاعدہ ہندو راشٹر ہے اور مسلمان بغیر کسی اعلان کے دوسرے درجے کا شہری ہے۔
اتنی لمبی گاتھا اور یاد ماضی اس لیے کہ اب ایودھیا نہیں بلکہ کاشی ہے، لیکن قصہ وہی پرانا ہے۔ یعنی ایک جانب مندر کے حامی اور دوسری جانب مسجد کے۔ اس بار بابری مسجد ایکشن کمیٹی نہیں تو سنی وقف بورڈ ہے۔ بی جے پی کو جو ایک مسلم دشمن درکار ہے، وہ اس کے پاس سنی وقف بورڈ کے روپ میں موجود ہے۔ پھر وہی بابری مسجد جیسا ہنگامہ بپا کرنے کی کوشش ہوگی تاکہ ہندو غصہ اور مسلم منافرت کوٹ کوٹ کر بھر جائے۔ اس بار تو اس ہندو–مسلم منافرت کی سیاست کے سب سے بہترین کھلاڑی نریندر مودی بذات خود موجود ہیں جو اڈوانی سے بھی بڑھ کر آگ لگا سکتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ معاشی مار کے سبب ایک ہندووں کے ایک بڑے طبقے کا موہ مودی جی سے بھنگ ہونے لگا ہے۔ ملک میں روزگار کا قحط ہے۔ کسان سڑکوں پر ہے۔ پٹرول کی قیمت 100 روپے فی لیٹر تک جا چکی ہے۔ مہنگائی ہے کہ کمر توڑنے پر آمادہ ہے۔ عام حالات میں کوئی بھی برسراقتدار پارٹی دوبارہ ایسے معاشی پس منظر میں اقتدار میں نہیں آ سکتی ہے۔ بس یہی سبب ہے کہ سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ کے لیے بی جے پی کو ایک ایسا شاندار جذباتی نسخہ چاہیے جو ووٹنگ کے وقت نوجوان کو اس کی بے روزگاری بھلا دے۔ کسان کو اس کی تحریک سے منحرف کر دے۔ عورت ور مرد ہر، ہر کس و ناکس کو مہنگائی کی مار سے غافل کر دے۔ اور وہ نسخہ مسلمانوں کی گیان واپی مسجد کی جگہ ایک مندر کی تعمیر ہی ہو سکتا ہے۔
یعنی سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ کے لیے بی جے پی کاشی تنازعہ کی شکل میں ’ایودھیا ٹو‘ یعنی ایودھیا دوئم جیسی تحریک کے لئے کمر کس چکی ہے۔ مسلمانوں نے بابری مسجد کے تحفظ کے نام پر جو غلطیاں کیں اگر وہ پھر سے ان کی جانب سے دہرائی گئیں تو اب مسلمانوں کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہوگا۔ اس وقت تو وی پی سنگھ، لالو یادو اور ملائم سنگھ جیسے لیڈران آنسو پونچھنے کو کھڑے تھے، کاشی معاملے میں کسی کی اتنی بھی جرأت نہیں ہوگی۔ اس لیے ہوش کے ناخن لیجیے اور اس معاملہ میں جذبات کا دامن چھوڑ کر دانشمندی سے کام لیجیے۔
روزنامہ قومی آواز نئی دہلی