یورپی پارلیمان نے حالیہ قرارداد میں توہین مذہب سے متعلق قوانين کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ تجارتی معائدے جی ایس پی پلس کی نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔ کیا پاکستان توہین مذہب کے قوانین میں ترامیم کرے گا
گزشتہ روز اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے یورپی پارلیمان کی اس قرارداد سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی رضوان غلزئی نے ڈی ڈبلیو اردو کو اسلام آباد سے بتایا کہ اس اجلاس میں شریک دو وزراء سے انہوں نے گفتگو کی۔ ان وزراء کی جانب سے رضوان غلزئی کو بتایا گیا کہ پاکستان توہین مذہب کے قوانین کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ رضوان غلزئی کا کہنا تھا، ”مجھے اجلاس میں شامل وزراء نے بتایا کہ یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے میں انسانی حقوق سے متعلق شرائط تو ہیں لیکن اس میں مذہب سے متعلق کوئی شق نہیں ہے۔ لہذا پاکستان توہین مذہب سے متعلق قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا‘‘۔
پاکستانی تجزیہ کار امتیاز گل اس حوالے سے کہتے ہیں کہ توہین مذہب جیسے قوانین صرف پاکستان نہیں بلکہ مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک میں بھی ہیں لیکن صرف پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ معاشی بلیک میلنگ ہے۔ ایسے ممالک یورپی یونین کے اتحادی ہیں جہاں توہین مذہب سے متعلق جیسے قوانین موجود ہیں۔ یورپی یونین کی توجہ صرف پاکستان کی طرف ہے۔ یہ قرارداد مغرب کی دوہری پالیسی کی عکاس ہے۔ پاکستان چین کے قریب ہے اور یہی مسئلہ ہے‘‘۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانين اور ان کا استعمال انتہائی حساس معاملات ہيں۔ کوئی بھی سیاست دان یا سماجی کارکن کھل کر اس میں ترمیم کا مطالبہ نہیں کر پاتا۔ ماضی میں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اسی قانون کو تبدیل کرنے کے مطالبے پر انہی کے گارڈ نے ہلاک کر دیا تھا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے طالب علم مشال خان کو توہین رسالت کے الزام پر قتل کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی صحافی فریحہ ادریس کہتی ہیں کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال اصل مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا، ”اس قانون میں اگر کبھی کوئی ترمیم کرنا بھی ہوگی تو ملک کے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لینا ہوگا اور سب کی آراء کو مدنظر رکھنا ہو گا تاکہ اس حوالے سے حکومت کے فیصلے کو عوام کی تائید حاصل ہو‘‘۔
گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی پارلیمان کی جانب ایک ایسی قرارداد پاس کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانين اور ان کے تحت الزامات کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث یورپ کو پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے جی ایس پی پلس کی نظر ثانی کرنی چاہیے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ‘خطرناک‘ حد تک توہین مذہب کے الزمات رپورٹ کیے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان میں سول سوسائٹی اور صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تجریہ نگاروں کے مطابق پاکستان اس وقت جس بند گلی میں پہنچا ہے اس کو یہاں تک پہنچنے میں بہتر سال لگے ہیں اور اس سفر میں سبھی حکومتوں اورحکمرانوں نے بلاتخصیص حصہ لیا ہے کسی نے تھوڑا کسی نے زیادہ۔ پاکستان کو اسلام کی لیبارٹری بنانے کا عزم، قرارداد مقاصد، جنرل ایوب خان کا روشن خیال اسلام ، یحیی خان کا نظریہ پاکستان ، بھٹو کی آئین میں دوسری ترمیم ،جنرل ضیاالحق کا متشدد اسلامائزیشن کا پراجیکٹ اور پرویز مشرف کا ماڈریٹ اسلام سب نے اس سفر میں اپنا اپنا رول ادا کیا ہے۔ اب واپسی ممکن نہیں ہے۔ اگر واپسی ہوئی بھی تو وہ کشت و خون سے بغیر نہیں ہوگی۔ جو سانپ ہماری ریاست نے پالے تھے وہ اب خود اس کو ڈنگ مارنے کے لئے اپنے پھن پھیلائے تیار کھڑے ہیں۔ اب ہماری ریاست اپنے کئے کے نتائچ بھگتنے کے لئے تیار ہوجائے
dw.com/urdu & Web desk