مارچ کے اوائل میں انڈیا کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کیا کہ ملک میں عالمی وبا کووڈ 19 کا ‘کھیل ختم‘ ہوا۔ہرش وردھن نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت کو یہ کہتے ہوئے سراہا کہ ان کی قیادت ‘بین الاقوامی تعاون کے معاملے میں دنیا کے لیے ایک مثال‘ ہے۔ جنوری کے بعد سے انڈیا نے ‘ویکسین ڈپلومیسی‘ کے طور پر بیرونی ممالک میں ویکسین کی خوراکیں فراہم کرنا بھی شروع کردیں۔
گذشتہ سال ستمبر کے وسط میں انفیکشن کا اوسط جہاں روزانہ 93 ہزار سے زیادہ تھا، اس کے بعد سے اس میں متواتر کمی دیکھی گئی اور یہ کم ہوکر 11 ہزار یومیہ ہو گیا۔ اس بیماری سے روزانہ ہونے والی اموات بھی کم ہو کر ہفتے میں 100 سے نیچے رہ گئی تھیں۔
وائرس کو شکست دینے کا جوش جو گذشتہ سال کے آخر سے پیدا ہورہا تھا وہ اپنے عروج پر پہنچنے لگا۔سیاستدانوں، پالیسی سازوں اور میڈیا کے کچھ حصوں نے یہ خیال ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ انڈیا واقعی اس وبائی دلدل سے باہر نکل آيا ہے۔دسمبر میں مرکزی بینک کے عہدیداروں نے اعلان کیا کہ انڈیا نے ‘کووڈ انفیکشن کو موڑ دیا ہے۔‘ انھوں نے شاعرانہ اصطلاحات میں کہا کہ اس بات کے شواہد نظر آ رہے ہیں کہ معیشت ‘سردی کی لمبی راتوں سے نکل کر سورج کی روشنی دیکھنے والی ہے۔مسٹر مودی کو ‘ویکسین گورو‘ کہا جانے لگا۔‘
فروری کے آخر میں انڈین الیکشن کمیشن نے پانچ ریاستوں میں اہم انتخابات کا اعلان کیا جہاں 18 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ ووٹرز 824 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ 27 مارچ سے شروع ہوکر یہ انتخابات ایک ماہ تک جاری رہنے والے تھے۔ اور ریاست مغربی بنگال کے معاملے میں ووٹنگ آٹھ مراحل میں ہونا قرار پائی۔ بغیر کسی حفاظتی پروٹوکول اور معاشرتی دوری کے انتخابی مہم زور و شور سے شروع ہوئی۔ مارچ کے وسط میں کرکٹ بورڈ نے گجرات کے نریندر مودی سٹیڈیم میں انڈیا اور انگلینڈ کے مابین دو بین الاقوامی کرکٹ میچز دیکھنے کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار شائقین کو اجازت دی۔
ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں چیزیں الٹنا شروع ہوگئیں اور انڈیا وائرس کی تباہ کن دوسری لہر کی لپیٹ میں تھا اور متعدد شہروں کو تازہ لاک ڈاؤن کا سامنا تھا۔اپریل کے وسط تک ملک میں اوسطا ایک دن میں ایک لاکھ سے زیادہ کیسز آنے لگے۔ اتوار کے روز انڈیا میں دو لاکھ 70 ہزار سے زیادہ نئے کیسز سامنے آئے جبکہ 1600 سے زیادہ افرادہ ہلاک ہو گئے۔ یہ دونوں اپنے آپ میں ایک دن میں سب سے زیادہ کے ریکارڈ تھے۔’دی لینسیٹ کووڈ 19 کمیشن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر انفیکشن کی یہ رفتار نہ روکی گئی تو جون کے پہلے ہفتے تک انڈیا میں روزانہ 2300 سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوسکتی ہیں۔
انڈیا اب صحت عامہ کی ایمرجنسی کی گرفت میں ہے۔ سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے۔ان میں قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں کووڈ سے مرنے والوں کی آخری رسومات کے لیے بھیڑ، ہسپتالوں کے باہر مرنے والوں کے غمزدہ لواحقین، سانس لینے کے لیے بے چين مریضوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کی لمبی قطاریں اور لاشوں سے بھرے مردہ خانے نظر آتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ہسپتالوں میں اور راہداریوں پر مریضوں کی بھیڑ ہے اور کبھی کبھی ایک ہی بستر پر دو، دو مریض نظر آرہے ہیں۔ہسپتالوں میں بیڈ، ادویات، آکسیجن اور ضروری ٹیسٹوں کے لیے کی جانے والی فون کالز کی بھرمار ہے۔ دوائیں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیں، اور ٹیسٹ کے نتائج میں دنوں لگ رہے ہیں۔
انتہائی نگہداشت کے باہر بیٹھی ایک غم سے نڈھال والدہ ایک ویڈیو میں یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ‘انھوں نے مجھے تین گھنٹے تک یہ نہیں بتایا کہ میرا بچہ مر گیا ہے۔‘ انتہائی نگہداشت سے باہر کسی دوسرے شخص کی آہ و بکا وہاں کی خاموشیوں کو توڑ دیتی ہے۔یہاں تک کہ انڈیا کے وسیع ویکسینیشن پروگرام کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ شروع میں ملک میں بنائی جانے والی ایک ویکسین کی افادیت کے بارے میں تنازع کھڑا ہو گیا جس سے اس کی پیداوار میں رخنہ پڑا۔
یہاں تک کہ جب ویکسین دینے کی مہم کو بڑھاوا دیا گیا اور گذشتہ ہفتے تک دس کروڑ سے زائد خوراکیں دی گئیں تو اس کی قلت بتائی جانے لگی۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، جو ملک اور دنیا کی سب سے بڑی ویکسین ساز کمپنی ہے، نے کہا ہے کہ وہ جون سے قبل سپلائی نہیں بڑھا سکتے کیونکہ اس کے پاس صلاحیت بڑھانے کے لیے وافر رقم نہیں ہے۔
انڈیا نے آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا کورونا وائرس ویکسین کی تمام برآمدات پر عارضی طور پر روک لگا دی ہے کیونکہ فوری طور پر ملک میں ان خوراکوں کی ضرورت تھی اور اس نے غیر ملکی ویکسینز کی درآمد کی اجازت دے دی۔ طلب میں اضافے کو پورا کرنے کے لیے اب آکسیجن کی درآمد کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
دریں اثنا انڈیا کی ایک الگ دنیا میں موت اور مایوسی سے دور ہر شام بند دروازوں کے پیچھے دنیا کا سب سے امیر کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا جارہا ہے، اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ انتخابی جلسوں میں اپنے قائدین کی پیروی کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ ہندو تہوار کمبھ کے میلے میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔ ماہر عمرانیات کے پروفیسر شیو وشوناتھن نے مجھے بتایا: ‘جو کچھ ہو رہا ہے، وہ حقیقت سے ماورا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے انڈیا میں آنے والی انفیکشن کی دوسری لہر کے تعلق پر کوئی دھیان نہیں دیا۔
فروری کے وسط میں انڈین ایکسپریس اخبار کی ایک صحافی تبسم برناگر والا نے مہاراشٹرا کے کچھ حصوں میں نئے کیسز میں سات گنا اضافے پر خطرے کی گھنٹی بجائی اور بتایا کہ متاثرہ افراد کے نمونے جینوم سیکوئنسنگ کے لیے بھیجے گئے ہیں تاکہ باہر سے آنے والے وائرس کی مختلف اقسام کا پتا لگایا جا سکے۔مہینے کے آخر تک بی بی سی نے کیسز میں اضافے کی اطلاع دی اور پوچھا کہ آیا انڈیا کو کووڈ کی نئی لہر کا سامنا ہے۔
مہاراشٹر کے ایک متاثرہ ضلع کے سرجن ڈاکٹر شیام سندر نکم نے اس وقت کہا تھا کہ ‘ہمیں واقعی نہیں معلوم کہ کیسز میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ پورا کا پورا کنبہ متاثر ہو رہا ہے۔ یہ بالکل نیا رجحان ہے‘۔ماہرین اب کہتے ہیں کہ نوجوانوں کی آبادی، وبا سے دیسی مدافعت، اور بڑی حد تک دیہی آبادی کا ‘ڈھنڈورا‘ پیٹنے والے انڈیا نے ’وائرس پر فتح‘ کا اعلان کر دیا تھا جو کہ قبل از وقت ثابت ہوا۔
بلومبرگ کے ایک کالم نویس مہر شرما نے کہا: ‘جیسا کہ انڈیا میں عام ہے، سرکار کا کبر، جنون زدہ قوم پرستی، پاپولزم اور بیوروکریٹک نااہلی ان سب نے ملکر یہ بحران پیدا کیا ہے۔انڈیا میں جاری دوسری لہر کی وجہ عوام کی جانب سے احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر شادیوں اور سماجی اجتماعات میں شرکت اور حکومت کی طرف سے سیاسی جلسوں اور مذہبی اجتماعات کی اجازت جیسی مختلف چیزیں شامل ہیں۔
انفیکشن میں کمی کے ساتھ لوگوں نے ویکسینیشن میں کم دلچسپی دکھانی شروع کردی اور اس طرح جولائی کے اختتام تک 25 کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف سست روی کا شکار ہو گیا۔ فروری کے وسط میں مشیگن یونیورسٹی کے ایک ماہر حیاتیات بھرمار مکھرجی نے ٹویٹ کیا کہ ‘انڈیا میں جب تک کم کیسز ہیں اسے اپنی ویکسینیشن مہم کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘ کسی نے ان کے مشورے کا نوٹس نہیں لیا۔
پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر پی سری ناتھ ریڈی نے کہا: ‘یہاں فاتح کا ایک احساس تھا۔‘ انھوں نے کہا: ‘کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ ہم نے بیماری سے مدافعت حاصل کر لی ہے۔ ہر کوئی کام پر واپس جانا چاہتا تھا۔ یہ بیانیہ بہت حد تک قابل قبول ٹھہرا اور احتیاط برتنے کی چند آوازوں پر توجہ نہیں دی گئی‘۔
طبیعات اور حیاتیات کے پروفیسر گوتم مینن نے کہا کہ ایک دوسری لہر ناگزیر تھی اور انڈیا ‘اس کو روک سکتا تھا یا اس میں تاخیر لا سکتا تھا یا پھر اس کے اثرات کو کم کرسکتا تھا۔مسٹر مینن نے کہا کہ بہت سارے دوسرے ممالک کی طرح انڈیا کو بھی جنوری میں مختلف قسم کے جینومک نگرانی کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ اقسام کے وائرس ہی اس بڑے اضافے کا سبب بنے ہوں۔مسٹر مینن نے مزید کہا: ‘ہمیں فروری میں مہاراشٹر سے موصول اطلاعات سے نئی اقسام کا علم ہوا۔ ابتدائی طور پر حکام نے اس کی تردید کی تھی۔۔۔ اور یہ ایک اہم موڑ تھا‘۔
صحت عامہ کے اس بحران سے کیا سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ ایک تو یہ کہ انڈیا کو وقت سے پہلے ہی وائرس پر فتح کا اعلان نہ کرنا چاہیے اور اسے ’فاتح کے جذبے‘ پر لگام لگانا چاہیے۔مستقبل میں انفیکشن کے ناگزیر ہونے کی صورت میں لوگوں کو مختصر، مقامی لاک ڈاؤنز کے مطابق خود کو ڈھالنا سیکھنا چاہیے۔
بیشتر وبائی امراض کے ماہر مزید لہروں کی پیش گوئی کرتے ہیں اور اس کے پیش نظر انڈیا واضح طور پر ہرڈ امینیوٹی (آبادی کی اکثریت میں قوت مدافعت) سے دور ہے کیونکہ یہاں ویکسین لگانے کی شرح سست ہے۔پروفیسر ریڈی کا کہنا ہے کہ ‘ہم انسانی زندگی کو منجمد نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔ اگر ہم پرہجوم شہروں میں جسمانی طور پر فاصلہ نہیں رکھ سکتے تو ہم کم از کم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہر کوئی مناسب ماسک پہنے۔
bbc.com/urdu