حسن مجتبیٰ
کراچی کے مرکزی و مصروف علاقے کے وسطی حصوں وکٹوریہ روڈ (جو کہ اب عبداللہ ہارون روڈ کہلاتا ہے)، داؤدپوتا روڈ، نمائش، مینسفیلڈ اسٹریٹ، سی آئی سینٹر، نیول کالونی، جہانگیر پارک سمیت کئی گلیوں اور محلوں کی فلیٹوں والی عمارتوں چاہے گیٹوں والے چھوٹے سے بنگلوں میں کراچی کی ایک پرانی شہری آبادی والے گوانی لوگ بستے ہیں۔
یہ گوانی لوگ جو کراچی میں عیسائی کیتھولک عقیدہ رکھتےہیں، پاکستان کے قیام سے بھی بہت عرصہ قبل بمبئی کے قریبی علاقے گوا سے کراچی آ کر بسے تھے۔ یہ لوگ اینگلو انڈین بھی کہلاتے ہیں جبکہ ان میں سے کئی ولندیزی یا پرتگیزی اور ہندوستانی خون کی آمیزش ہیں۔ بڑے بوڑھےگوانی بوڑھیاں گوانی زبان جبکہ نئی یا پکی عمر کے نسل کے لوگ انگریزی بولتے ہیں۔ اب کئی برسں سے نئی نسل کے لڑکے لڑکیاں کراچی کی اردو بھی “تھوڑا تھوڑا” بولنے لگے ہیں۔ زیادہ تر گوانی لوگ پولیس، خاص طور ٹریفک پولیس، نرسنگ، کرسچن مشنز، تعلیم ، دفاتر میں آفس سیکرٹری شپ، اب کچھ کچھ بزنس اور آئی ٹی غیرہ کے شعبوں سے وابستہ رہتے آئے ہیں۔
تو صدر کے ہی ایسے یک گوانی خاندان میں مشہور لیکن کل تک معتوب لکھاری اور صحافی سرل المیڈا کا جنم ہوا ہوا تھا۔کئی ہونہار گوانی بچوں کی طرح سرل المیڈا بھی صدر میں ہی مشہور کرسچن اسکول سینٹ پیٹرکس میں داخل ہوا تھا۔ اسی اسکول میں فوجی آمر پرویز مشرف بھی بارہویں تک پڑھ کر نکلا تھا اور اسی اسکول سے جام صادق علی بھی نکالا گیا تھا۔ (پھر سینٹ پیٹرکس اسکول کے صد سالہ جشن کے موقعہ پر جب جام سندھ کا وزیر اعلی تھا تو اسے مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ جام نے اس تقریب میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی کہ اسکول والوں نے اسے سکول سے نکالا دیا تھا اب اسے بطور مہمان مدعو کیا ہے)۔
سرل المیڈا نے سینٹ پیٹرکس میں امتیازی پوزیشن حاصل کی اور اسے لندن میں اسکالر شپ ملی۔ وہ آکسفورڈ اعلی تعلیم حاصل کرنے گیا جہاں سے وہ قانون میں ڈگری لیکر لوٹا۔ اسی طرح یہ شاید کراچی کے گوانی بچوں میں پہلا بچہ تھا جو آکسفورڈ تک گیا تھا۔
پاکستان میں انگریزی کا سب سے بڑا روزنامہ ڈان
پتہ نہیں کیوں پاکستانی انگریزی زدہ کلاس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ڈان پڑ ھے اور ڈان میں لکھے۔ ارد شیر کاؤس جی نے بھی ڈان میں لکھنے کا آغاز “لیٹرز ٹو دی ایڈیٹر” سے کیا تھا۔ بڑے بڑے جوشیلے خط لکھا کرتا یہ اینگری اولڈ مین۔ بڈھا پارسی۔ ڈان کے پرانے پڑھنے والوں کو بیرسٹر باچہ بھی یاد ہوگا جو ڈان کے ایڈیٹر کو چھوٹے چھوٹے خطوط لکھا کرتا تھا۔
میرا ایک دوست “ڈان” کے مطالعہ کو دو قسموں میں بانٹا تھا۔ “ڈان کی سندھی پڑھنی” اور “ڈان کی پنجابی پڑھنی”۔ وہ کہتا ہے کہ “پنجابی پڑھنی” یہ ہوتی ہے کہ جب ڈان کو کوئی پنجابی اٹھاتا ہے تو وہ اک نگاہ غلط پہلے صفحے پر ڈالنے کے بعد سیدھا بیچ والے صفحات پلٹ کر اسپورٹس کے صفحے کو جاکر چاٹتا ہے۔ لیکن “ڈان” کو جب سندھی پڑھنے کو اٹھاتا ہے وہ “قائداعظم والے” لوگو سے شروع کرتا ہے ڈان کے ایڈیٹوریل سمیت ہر شے گھول کر پی جاتا ہے سوائے اسکے اسپورٹس اور بزنس اور اکانومی والے صفحات کے۔ بزنس اور اکانومی والے پیلے صفحات سندھی فرش پر بچھا کر اسپر روٹی رکھ کر کھاتے ہیں۔ ڈان کے ایڈیٹوریل سے وہ سیاسی لائن اخذ کرتے ہیں۔ وہ ڈان پر کراس ورڈس بھی کھیلتے ہیں۔ اگر میرے جیسے سندھیوں کو یہ پتہ ہو کہ ڈان کے اقتصادی صفحات کا مدیر جاوید بخاری کامریڈ عزیز سلام بخاری کا بیٹا ہے تو و وہ مارے عقیدت کے ڈان کے پیلے صفحات کو کبھی فرش پر بچھا کر روٹی نہ کھا ئیں۔
کامریڈ عزیز سلام بخاری سیاسی سندھی لیفٹ کا یک انمول ہیرو تھا جو سندھ کے ٹنڈو قیصر کے گاؤں میں ابدی آرامی ہے۔ اور ٹنڈو قیصر کی مٹی کا بین الاقوامی شہرت کا بلوچ قوم پرست نظریہ دان قادر بخش نظامانی لیاری میں۔ عزیز سلام بخاری جو کہ پرتھوی راج کے ساتھ اسٹریٹ تھیٹر کیا کرتا تھا۔ اور جس نے سندھ میں انقلابیوں کی نسلیں تیار کیں۔ ان پر پھر کبھی سہی۔ ہاں البتہ کچھ کامریڈ سندھیوں کو یہ پتہ ہے ڈان کے ان پیلے صفحات کی ایک مدیر جمال نقوی کی بیٹی افشاں صبوحی ہے ، جب روس یا سابقہ سوویت یونین نہیں ٹوٹا تھا تو کئی کامریڈوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کادرجہ گورباچوف کی بیٹی کے جیسا تھا۔
افشاں صبوحی پروفیسر جمال نقوی کی بیٹی ہیں۔ تو “ڈان” کے موجودہ ایڈیٹر ظفر عباس سمیت عباس برادران بھی جمال نقوی کے بھانجے ہوا کرتے ہیں۔ ندیم فاروق پراچہ،اردشیر کاؤس جی، ایاز امیر کے کالم بھی “ڈان” کے پڑھنے والے بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ لیکن جب کوئی سینئر سندھی ادیب اور سیاستدان فوت ہوجاتا تھا تو “ڈان” والے پھر “ڈان” میں موجود سندھ او رملک کے بڑے سندھی صحافی اور صحافت کے استاد شیخ عزیز سے اس کا تعزیت نامہ لکھواتے تھے۔ حالانکہ شیخ عزیز جیسے پائے کاصحافی اور ایڈیٹر آج تک پاکستان میں موجود نہیں۔
تو پس عزیزو جب اردشیر کاؤس جی مر گیا (وگرنہ کراچی میں یہ ملک ریاض یا اس قماش کا کوئی اور پیداگیر قبضہ گیر پاؤں جما نہیں سکتا تھا) تو کراچی کے اس گوانی لڑکے نے لکھنا شروع کیا۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ان اپنے پیشہ ور رپورٹروں لکھاریوں کے برعکس جو ماحولیات یا تعمیرات جیسے غیر ضروری موضوعات پر لکھا کرتے تھے سرل نے “حساس نوعیت” کے “قومی سلامتی” کے موضوعات کو قلم سے ہلکا سا چھونے لگا اور پھر فوجی ایسٹیبلشمنٹ کو “بوائز” لکھنے لگا۔ کالموں کے علاوہ سرل کا کام ڈان کے اداریے بھی لکھنا ہوا کرتا۔ “ڈان” کے اسوقت کے ایڈیٹر اور ہمارے پیارے دوست عباس ناصر نے بھی سرل کی لکھنے پر اسکی بہت ہمت افزائی کی۔
سرل کے دوستوں نے سرل کو بہت سمجھایا کہ قائداعظم کے ڈان اور ڈانوں کے ختنہ زدہ فتنہ زدہ پاک سرزمین پر زندہ رہنے کو محض آکسفورڈ کی انگریزی ہی ضروری نہیں۔ نہ کر نہ کر۔ ڈھول سپاہیوں کو “بوائز، بوائز” نہ کہہ کر پکار وہ آخر ماہی نی جرنیل نی کرنیل نی۔ لیکن وہ کہ لوگوں کے جاننے کے حق پر اڑا رہا۔ پھر سول اور فوجی سانڈوں کے لڑائی میں یہ قلمی مینڈک لتاڑا ٓگیا۔ ایک لیک لکھ کر۔ ملک میں “ڈان لیکس” کا تو آپ کو پتہ ہے۔ جب سرل نے اپنے ایک کالم میں نواز شریف سے کہا تھا کہ راحیل شریف کو ترقی مت دو۔ اس وقت جب ملک کی شاہراہوں پر ٹرکوں پر “شکریہ راحیل شریف “ لکھا تھا۔ میمو گیٹ کے بعد پھر یہاں “ڈان لیکس” والی فلم چل نکلی۔ وہ سرل کے اسلام آباد والے گھر کے اندرونی داخلے کے باہر جوتے رکھنے والی جگہ کے پاس والی دیوار پر ملک کے بانی کی تصویر لگی تھی۔ اس نے سمجھا تھا کہ گیارہ ستمبر47 والی تقریر کرنے والی اس بابے کی تصویر کو دیکھ کر اس کو لینے آنیوالے واپس چلے جائیں گے۔ بیڈ بوائے۔
“بیڈ بوائئے واچ یو وانا وانا ڈو
واچ یو وانا ڈو
وی دے کم فار یو”
اب اس ملک کی بھڑوے الیکٹرانک میڈیا کی اسکرین پر ہر وقت اس “کرسچن” اور غدار “ سرل کی تصویریں چلائی جاتیں۔ کبھی کہا جاتا کہ مریم نواز نے اسکو قومی راز فرا ہم کیے کہ امریکی وفد نے نواز شریف اور جنرل راحیل شریف سے کہا کہ افغانستان میں درانداز اور حقانی ٹولے کو مدد مت فراہم کرو۔ ان کے خلاف کاروائی کرو” یہ تو سب کو معلوم تھا۔
سرل سمیت “ڈان لیکس ” میں ملوث تمام افراد کیخلاف کاروائی کا فیصلہ جنرل کیانی کی صدارت میں ہونیوالےکور کمانڈروں کے اجلاس میں کیا گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں اصل پارلیمان کور کمانڈروں کی پارلیمان ہوتی ہے۔ یہ بھی دنیا کے واحد جری جرنیل اور کور کمانڈر تھے جو ایک اخباری خبر کو جھوٹی ثابت کرنے کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹے ہوئے تھے پر باقاعدہ ایک اخبار اور کالم نگار کیخلاف اعلان جنگ کردیا تھا۔ چھاؤنیوں میں “ڈان” کی ترسیل اور ٹی وی چینلوں کے ڈسٹری بیوٹروں کی تنظیم (جو کہ چلتی ایجنسیوں کی مرہون منت ہے) کے ذریعے “ڈان نیوز” کی نشریات روک دی گئی۔
لیکن سرل ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جاتا ہے۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ اگر سرل کسی دبنگ انگریزی اخبار سے وابستہ نہ ہوتا تو کچھ دنوں کے بعد خدانخواستہ سرل کسی مخالف ملک کی سرحد پر بھاگتے اور مقابلے میں مارا ہوا بتایا جاتا۔سرل نے لکھنے کے موضوع بدلنا چاہے۔ 2018 کے انتخابات کے عنوان میں سرائیکی صوبے کا مسئلہ اٹھا اور سرل اس پر لکھنے کو ملتان جا نکلا۔ لیکن یہاں اتفاق سے اپنی انتخابی مہم پر سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف بھی دوروں پر نکلے ہوئے تھے۔ اب کون رپورٹر یا صحافی نہیں چاہے گا کہ نواز شریف سے انٹرویو کا اسکوپ نہ کرے۔ سرل نے ملتان میں نواز شریف سے انٹرویو کی درخواست کی اور نواز شریف نے انٹرویو کی حامی بھر لی۔
اب اس انٹرویو کی بھی اسکے شروع والے دن سے ہی ایک الگ کہانی ہے۔
لیکن انکے نزدیک دشمن کا ایٹم بم سرل اور نواز شریف تھے۔ یہ بھی اڑائی گئی کہ سرل کا دوستانہ مریم نواز کے ساتھ ہے۔ سرل امریکہ میں تھا۔ سرل کو اپنی قانونی ڈگری پر اعتماد تھا کہ وہ ہ واپس جاکر اس تمام یلغار کا قانونی سامنا کرے گا۔ اور نیز یہ کہ وہ اپنا کیرینر ختم کرنا نہیں چاہتا۔
پھر کن سیانے سیا سیوں نے سرل کو مشورہ دیا آئی ایس آئی کے چیف سے ملو ۔ملکر معافی تلافی کر والو۔اس نے ایسا بھی کیا۔ پھر جب وہ چیف ریٹایرڈ ہوا شاید جنرل عباسی تو پھر اس پر اس غریب کی “تفتیش” کہ وہ چیف سے ملے کیوں؟
سرل نہ کوئی سیاسی کارکن تھا نہ انقلابی نظریاتی کارکن۔ وہ بس ایک لکھاری اور کالم نگار تھا جس کے تمام خرچے اور نخرے “ڈان” والے اٹھایا کرتے۔ وہ انکا ایک مہنگا را یڈیٹر تھا۔ہونا بھی چاہیے۔لیکن یہ ڈبل جیبوں والے سیٹھ۔! شہزاد سلیم کے کیس میں بھی بڑھکیں مارکر پھر نہ جانے کدھر گئے۔ ہاں ان کے ساتھ سرل سے یارا نہ رات گئے گلاسوں کے کھنکھنے تک تو تھا۔ یہ ایک واحد خبر تھی جس میں وزیر اطلاعات پرویز رشید اور سینئر سفارتکار طارق فاطمی کو اپنے عہدوں سے۔ برطرف ہونا پڑا۔ بے قصور۔
سرل مسلسل لکھتا رہاحکایت خونچکاں مگر۔ مگر کب تک۔ سرل واشنگٹن میں تھا۔ لو پروفائیل۔ پھر آخری خبروں تک شادی کرلی۔
تجھ میں ہمت ہے زمانے سے بغاوت کرلے، ورنہ ماں باپ جہاں چاہتے ہیں شادی کرلے۔
♣