مہر جان
اکثر میں اس بات پہ حیران رہا کہ آخر سقراط نے ایسا کیوں کہا کہ “میں جتنے بھی بڑے نامی گرامی دانشوروں سے ملا، وہ اتنے ہی بڑےاحمق نکلے “ اس بات میں کیا ایسی گہری بات کی گئی ہے جو میرے سر سے گذر گئی۔ سقراط آخر ان دانشوروں سے چاہتا کیا تھا ، اکثریت کی رائے میں یہی لوگ دانش و علم کے منصب پہ تو فائز ہیں، بڑے بڑے خطابات سے لے کر بڑے ایوارڈ تک یہ لے چکے ہیں ، مختلف بڑے بڑے ادارے انہیں مدعو کرتے ہیں ، ان کو غور سے سنتے ہیں ، انکی ادب و تعظیم بجا لاتے ہیں ، انکی کتابیں دھڑا دھڑ مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہیں ، کتاب دوستی کو یہ لوگ اپنا شعار بنا چکے ہیں ، پھر آخر سقراط کے لیے دانش کس چڑیا کا نام ہے ؟
کریٹو میں اُس دیوی کو آخر کیا سوجھی کہ سقراط کو دانش کا پیامبر کہا اور سقراط اسی پیمبری کے دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بڑے بڑے حکماء و دانشوروں سے ملنے کے لیے رخت سفر باندھا اور جہاں کہیں بھی گیا اور جن جن سے ملا یہی نتیجہ اخذ کرتا رہا کہ “میں جتنے بڑے دانشوروں سے ملا وہ اتنے ہی بڑے احمق نکلے اور تو اور جو بڑے بڑے شاعر تھے، اہل ایتھنز وہ اپنے ہی اشعار کی تفہیم سے ناواقف تھے”کیا سقراط آنے والے دنوں کو دیکھ لیا تھا یا سقراط کو دانشوروں کی نرگسیت کاعلم تھا؟ ۔۔۔۔۔
بقول احمد جاوید علم کی دو دنیائیں ہیں اک معلوم کی دنیا اور اک نامعلوم کی دنیا جن کی نامعلوم کی دنیا جتنی بڑی ہوگی اتنی ہی ان کی معلوم کی دنیا بڑی ہوگی ، لیکن دانشوری یا پروفیسری جیسی بیماری کسی کو بھی لاحق ہو تو وہ نامعلوم کی دنیا میں جانے سے محروم رہتی ہے، وہ ہمیشہ معلوم کی دنیا کو علم کی دنیا سمجھ کر اپنے آپ میں ایک اسکالر ہوتا ہے۔
خیر ناصر عباس نئیر جو کہ اردو ادب کی دنیا میں اک نام ہے انکا میدان گرچہ نوآبادیات رہا ہے لیکن پاکستان کی نوآبادیاتی پا لیسیوں پہ شاید ہی انہوں نے قلم اُٹھایا ہو ۔پاکستانی دانشوروں کا یہ المیہ شروع دن سے رہا ہے۔چاہے لیفٹ ہوں یا رائٹ ، فلسفے کے علمبردار ہوں یا اکیڈمک کی دنیا میں پی ایچ ڈی ہولڈرز پاکستان کی نوآبادیاتی پا لیسیوں پہ ان کی خاموشی ان کی “دانشورانہ بددیانتی “ کو سامنے لاتی رہے گی ۔
اس حوالے سے نو آبادیاتی پالیسیوں پہ بلوچستان میں پاکستانی تسلط کو دوام دینے کیلئے ریاستی لبرل کی دوغلی پالیسی بھی عیاں ہے۔چاہے وہ اجمل کمال کی سبک زبانی ہو یاوجاہت مسعود کے کھوکھلے الفاظ،(جنہوں نے اپنے ہی سائٹ سے بلوچ قومی سوال پر ہونے والے مباحث /اپنے اور ہمارے آرٹیکلز/ کو ہٹادیا تھا ) ۔
ناصر عباس نئیر کی بہت سی کتابیں پڑھنے کی میں جسارت کرتا رہا بلکہ ان سے ابتدائی باتیں بھی سیکھتا رہا لیکن بہت سے تھیمز مثلاً نظم کیسے پڑھیں میں “خاموشی کا پہلو “ اسی طرح “ نو آبادیاتی صورتحال” “کیا جدیدیت محض مغربی مظہر ہے؟” اکثر ایسے تھیمز میں اصل رائٹرز کو گر کوئی پڑھ لیں تو نئیر صاحب کو اک اچھا “مترجم” بندہ کہہ سکتا ہے لیکن یہاں اصل رائٹرز کو پڑھے کون ؟ ان کی آخری کتاب”جدیدیت و نوآبادیت” جو مجھے رمضان میں ہاتھ لگی چھٹیوں کی بدولت پڑھتا رہا اس کتاب میں “مقدمہ” کو مجھے بار بار پڑھنا پڑا اس کی بڑی وجہ میری اپنی سمجھ بوجھ کی کمی تھی کہ جس خیال پہ انہوں نے پورا مقدمہ رکھا ہے کہ “ جدیدیت کا رجحان آفاقی ہے لیکن تجربہ مقامی ہے” اس خیال پہ مقدمہ کہ “مغربی تناظر میں جدیدیت کو نہیں دیکھنا چاہیے۔
مشرق کی بھی اک جدیدیت ہے اور پھر مقدمہ پہ پوری کتاب لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔لیکن انہوں یہ کمال کر بھی دیا ۔اب اس قدر کمزور خیال (فلسفیانہ حوالے سے) پہ مقدمہ لکھنا اور پھر اسی مقدمہ کی بنیاد پہ کتاب لکھنا واقعی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے “جدیدیت” صرف اب اک اصطلاح نہیں رہی بلکہ اس اصطلاح کے پیچھے پوری تاریخ اور فلسفیانہ نظام موجود ہےنئیر صاحب کا یہ انداز بیان کہ جدیدیت مغرب کی میراث نہیں بلکہ مشرق کی بھی اپنی جدیدیت ہےاس اصطلاح کو بطور اصطلاح مشرقی رنگ دینا بھی “کالونیل ذہنیت” کی عکاسی ہے۔
چلیں تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ مشرق کی اپنی جدیدیت غالب و بیدل کے ہاں ملتی ہے کیا واقعی وہ جدیدیت کے زمرے میں آتی یا “ما بعد جدیدیت” پہ “جدیدیت” کی دیوار کھڑی کرنے کی اک لاحاصل کوشش ہے ۔ جب بھی ہم رجحان کی بات کریں کہ یہ آفاقی ہے (خیر رجحان پر بھی انہوں کچھ لکھا ہے ) اور تجربہ مقامی ، یہ ایک طریقہ سے جدیدیت ہی نہیں رہی بلکہ مابعد جدیدیت کی ڈومین میں آ گئی لیکن نئیر صاحب نے مقامی تجربہ کو جس طرح جدیدی رجحان کے زمرے میں جدیدیت کہا ہے بالکل سمجھ سے بالاتر ہے اسی لیے مجھے مقدمہ بار بار پڑھنا پڑا کہ مقامی تجربہ کیسے جدیدیت میں آرہا ہے ؟
بلکہ ایک پیراگراف کہ “لسانی استعداد اور جدیدیت کے استعداد میں مماثلت نہیں، بلکہ جدیدیت کے تجربے اور زبان کے تجربے میں بھی گہری مماثلت بھی ہے۔ رائج زبان سے انحراف کا مسئلہ پیدا ہی جدیدیت پسندوں کے ہاں ہوتا ہے۔ رائج زبان کیا ہے ؟ زبان کی کارکردگی کو گنے چنے ، مانوس سانچوں میں قید کرنا ۔ جدید تخلیق کاران رائج سانچوں سے انحراف کر تا ہے، زبان کے اساسی نظام سے نہیں، وہ لسانی استعداد تک رسائی حاصل کرتا ہے ، جو لامحدود پیرا یہ بیان کی تخلیق کامنبع ہے ۔چونکہ لوگ زبان کی کار گردگی یعنی اس کے رائج سانچوں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں ، اور لسانی استعداد سے کم ، اس لیے انہیں جدید تخلیق کاروں کی زبان سے الجھن محسوس ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی جدید شاعری کی طرح اردو شاعری کی تاریخ باور کراتی ہے کہ جب بھی کسی شاعر نے “اپنی نشریات میں تخلیق و تجدد کی دیوتاؤں خصوصیات میں یقین محسوس کیا ہے “، یعنی جدیدیت کا تجربہ کیا ہے تو اسے زبان کےرائج پیرائےناکافی محسوس ہوئے ہیں اس نے رائج زبان پر شدید دباؤ ڈالا ہے اس کی شکست وریخت کی ہے اور بالکل نئی ، اجنبی اور اپنے زمانے کے قارئین کے لیے صدمہ انگیز زبان وضع کی ہے ، برصغیر کے تناظر میں اس امر کی اہم ترین مثال بیدل عظیم آبادی ہیں اس کے بعد غالب ہیں ۔ دونوں کی فکر و شعر یات میں بہت کچھ مماثل ہے !۔
دونوں برصغیر کے “جدید شاعر ہیں “ اور انکی جدیدیت کا مغربی جدیدیت سے کوئی تعلق نہیں ۔ انکی جدیدیت اپنی ہے ، مقامی ہے ، اور خود انہی سے مخصوص ہیں ۔ دونوں کے ہاں ابلاغ کی زبان کی محدودیت کا احساس ہے اور اسے توڑ کر ایک ایسی نئی زبان تخلیق کی کوشش کی ہے جس پہ دونوں کے دستخط ہیں ۔ یہی نہیں دونوں روایت شکن بھی ہیں۔ میں تو بار بار پڑھتا رہا کہ یہ پیرا گراف جدیدیت پہ کیسے اتر رہا ہے اس پیراگراف سے قبل کوئی بھی ماہر لسانیات نئیر صاحب کے الفاظ کا اندازہ کرسکتا ہے کہ کیسے الفاظ نئیر صاحب کے ساتھ نہیں دے رہے ، اور بعد میں آنے والا مذکورہ پیرا اپنے اندر مابعد جدیدیت کا پہلو ہر طرف کیسے سمیٹا ہوا ہے؟ جبکہ نئیر صاحب جدیدیت کا پہ طبع آزمائی کررہے ہیں ۔
اب میں اصل بات پہ آنا چاہتا ہوں کہ جدیدیت کو نئیر صاحب مشرقی تناظر میں دکھانا چاہ رہے ہیں اور بنیاد وہی خیال ہے کہ “جدیدیت کا رجحان آفاقی ہے” لیکن مشق لاحاصل، آفاقی کا تصور کو سمجھنے کے لیے افلاطون کے ورلڈ آف آئیڈیاز کو سمجھنا لازمی ہے جہاں بقول رسل کُلیت کو پہلی دفعہ اس قدر جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے جس طرح “جدیدی رجحان کو آفاقی” کہا گیا ہے اس خیال میں بھی کافی جھول پایا جاتا ہے جدیدی رجحان کے برعکس انسان کا متھیکل ہونا زیادہ آفاقی ہے۔ متھس کی دنیا میں آج بھی انسان کو متھیکل اینمل کہا جاتا ہے اسی طرح آج بھی یہ تصور عام ہے کہ متھس میں ریزن اور ریزن میں متھس کا اک جدلیاتی تعلق موجود رہا ہے ۔ اب جب جدیدی رجحان کو آفاقی کہنا اور انہیں مشرق کی تناظر میں یا مقامی تجربہ کی صورت میں دیکھنا جدیدیت ہے یا مابعد جدیدیت یہ سوال بہر حال موجود ہے ۔
ہوسکتا ہے کل کلاں مغرب کی رائٹرز کی طرح نئیر صاحب بھی مابعد جدیدیت کی رجحان کو آفاقی کہہ کر مشرق کی اپنی مابعد جدیدیت کو بیان کریں چونکہ ان کے اچھا مترجم ہونے کا میں اعتراف کر چکا ہوں پھر مابعد جدیدیت کا رجحان بھی آفاقی رہیگا ۔ اس خیال کہ (جدیدیت کا رجحان آفاقی) کا اس قدر کمزور ہونا اسکی مقدمہ میں دریدا کے الفاظ میں جُھول کا سبب بن رہا ہے ، ہاں اگر نئیر صاحب جدیدیت کی رجحان کی بجائے “ارتقاء / جدت “ کے رجحان کو آفاقی کہتے اور مشرقی تناظر کو ارتقاء کے تناظر میں پیش کرتے پھر کچھ نہ کچھ لا محالہ ہوجاتا کہ مشرق کی اپنی ارتقائی/ جدت کا سفر ہے اور مغرب کی اپنی ارتقائی مراحل ہیں یہی ارتقاء کا رجحان آفاقی ہے لیکن ایک ایسی اصطلاح(جدیدیت) کو مستعار لینا جس کی ایک اپنی تاریخ و فلسفہ و ادب کا اک وسیع دائرہ ہے اور اس پر مابعد جدیدیت کے خول کو چڑھا کر جدیدیت کا پرچار کرنا مقدمہ ، خیال ، اور اصطلاح کے ساتھ بہت ہی ناانصافی ہے۔
دوسرے ابواب زیادہ تر معلومات کی اک دنیا ہے جو کہ فلسفیانہ گہرائی یا تجزیہ سے خالی ہیں۔ ان پہ تبصرہ کسی اور دن کہ کیسے بیدل اور غالب کی روایت شکنی یا انفرادیت کو جدیدیت کہا جارہا ہے مثلاً غالب کا ایک شعر درج کیاکیا گیا ہے کہ
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اب کوئی بھی فلسفہ کا طلب علم بتا سکتا کہ یہ شعر جدیدیت کے کس زمرے میں آتا ہے ؟ ۔
کسی اور کتاب میں نئیر صاحب لکھتے ہیں کہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت میں خط امتیاز کھینچنا مشکل ہے” شاہد اس کتاب میں نیّر صاحب خود خط امتیاز کھینچنے میں ناکام رہے اب اک بات ذہن نشین کرلینا چاہیے شاعر کے “اشعار” کا فلسفہ میں تعین اور فلسفہ “ شاعری” میں تعین کرنا بھی ایک الگ باب کا متقاضی ہے جو پھر کبھی سہی۔
فی الحال سقراط کو پڑھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیا سقراط دیوی کے اس دعوے کو جُھٹلا سکے یا نہیں کہ سقراط ایک دانشور ہیں ۔۔۔۔۔؟
۔جاری ہے۔