خالد تھتھال
کل سے ملالہ کےحوالے سے فیس بک پر ایک طوفان برپاہے۔ میری فرینڈ لسٹ میں چونکہ صرف ایسے لوگ ہی موجود ہیں جن نزدیک ملالہ ایک انتہائی مقدس ہستی کا نام ہے جسے لڑکی کی بجائے ایک دیوی کہنا یا لکھنا زیادہ مناسب ہو گا۔ چنانچہ وہ ملالہ کے دفاع میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ان میں اکثریت کا زور اس بات پر ہے کہ ملالہ کی باتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جا رہا ہے، اصل میں ملالہ کے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا جو لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ رملہ بنت ابو سفیان کی پیغمبر اسلام سے شادی کے علاوہ ماریہ قبطیہ کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔
ملالہ کے حوالے سے دوسرا نقطہ نظر مختلف سوچ رکھنے والوں کے نزدیک ملالہ کو ایک شیطان کہا ہے، اور یہ بہت اچھا ہوا کہ اُس کا ناپاک وجود اس پاک سر زمین پر نہیں ہے۔ووگ کے انٹریو کے چند فقروں کو زیر بحث لاتے ہوئے ملالہ کو یوں مطعون کیا جا رہا ہے۔
“ملالہ نے نکاح کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے اور بغیر نکاح کے ساتھ رہنے کی حمایت کی ہے “
“جن کے والدین روسی تخم اور امریکی رومانس کی پیداوار ہیں اور ان کی ماسٹرنی ملالہ کو بنایا گیا ہے“
“۔۔۔۔۔۔۔ھمارے ہاں کے لبرل سیکولر، سرخے اور دیسی چے گویرے بھی ایسے ہی قوانین کے نفاذ کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔۔۔۔ لیکن میں شکرگزار ہوں اپنے ان پڑھ فسادی بنیاد پرست اور ترقی دشمن “علماء دین” کا جو کسی بھی قیمت پر ایسے نہیں ہونے دیں گے۔مر جائیں گے لیکن ایسی بے حیائی کو قانونی تحفظ کبھی حاصل نہیں کرنے دیں گے!۔
میں لعنت بھیجتا ہوں اس ترقی پر اس روشن خیالی پر اور ایسی سپرپاور پر جہاں اصل باپ کوئی لیبارٹری بھی نہیں تلاش کر کے دے سکتی..!۔۔۔۔“
میرے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملالہ نہ ہی ایک دیوی ہے اور نہ ہی ایک شیطان، وہ گوشت پوست سے بنی ایک عام سی لڑکی ہے جسے مخصوص حالات نے ایک ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں پاکستان میں اُس کے دوستوں سے زیادہ اُس کے دشمن ہیں، اور پاکستان سے اگر باہر نکلیں تو اُس کے دوستوں اور ہمدردوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔
کیا اس انٹرویو میں ایسا کچھ ہے جس کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے، کیا ملالہ کو ایسے دفاع کی ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ملالہ پاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ میں مقیم ہے، ملالہ نے مستقل رہائش کے لیے کبھی پاکستان نہیں آنا، وہ برطانیہ میں کوئی این جی او یا کسی ادارے کی قیادت کرے گی۔پاکستان میں کوئی اُسے اچھا سمجھے یا برا سمجھے، ملالہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اور جب اُسے کسی چیز سے فرق نہیں پڑنے والا تو پاکستان میں موجود ملالہ کے ہمدردوں اور مخالفین کو اتنا ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ملالہ کو دیوی اور شیطان سے ہٹ کر دیکھیں تو ملالہ عمر کے اُس حصے میں جہاں ہارمونز اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ آپ نوبل انعام یافتہ ہیں، یا لوگ آپ سے کسی مخصوص رویے اور سوچ کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ عمر رنگین خواب بننے کی ہوتی ہے، جو یہ نہیں دیکھتی کہ خوابوں کا شہزادہ کیا وہی ہو جسے والدین اپنی مجبوریوں کی وجہ سے پسند کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یا آپ کبھی یہ سوچیں کہ آپ کے مخالفین کا ردعمل کیا ہو گا، یا آپ کا فین کلب کن مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے۔
انسان سرکاری تقریبا ت میں تو ایک مخصوص قسم کا لباس بلکہ یونیفارم پہن کر اپنی سوچیں چھپا سکتا ہے لیکن جب زندگی سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تو کبھی کبھار انسان کا سنسر جواب دے جاتا ہے اور اتفاقیہ طور پر منہ سے کچھ ایسا نکل جاتا ہے جو شائد نہیں نکلنا چاہیے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کے بہت سے معیارات خصوصی طور پر ایک انسان کا دوسرے انسان سے تعلق کے حوالے سے مغربی معیارات عقلی طور پر ہم سے زیادہ بہتر ہیں۔ اُن کے معیار عقلی ترازو پر ہمارے صدیوں پرانے فرسودہ معیارات پر بھاری پڑتے ہیں۔ اُن معاشروں کے معیارات سے پہلی نسل کے لوگ ڈرتے ہیں، ان کے خلاف بند باندھنے کے لیے مغرب میں منتقل ہونے والے کئی لوگوں نے اپنے بچوں خصوصی طور پر بچیوں کو پاکستان منتقل کیا۔جنھوں نے ایسا تجربہ نہیں کیا، انھوں نے بچیوں کو سکول سے سیدھا گھر آنے کی تلقین کی، گھر آنے کے بعد فوراً مسجد بھیجا تاکہ بچیاں گمراہ نہ ہوں، مذہب کو اس مغربی “یلغار” کے سامنے ایک بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
آج اگر دوسری یا تیسری نسل پہلی نسل کے مقابلے میں زیادہ شدت پسند ہے تو اس کی ایک وجہ پہلی نسل کا وہ ڈر تھا جس کے خلاف اُنھوں نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
میری بیٹی تیرہ سال کی عمر میں ہی ناروے میں ایک سلیبرٹی کا درجہ حاصل کر گئی۔ ایک بار اُس نے انٹرویو میں کہا کہ ہم دوسری نسل کے لوگوں کو ہر وقت ایکٹنگ کرنا پڑتی ہے، ہم سکول وغیرہ جاتے ہیں تو ہم نارویجن بن جاتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں تو ہم اپنے اوپر پاکستانیت کا غلاف چڑھا لیتے ہیں۔ اس فقرے کو ہر گھر پر اپلائی کیا جا سکتا ہے خواہ وہ گھر کسی نوبل امن انعام یافتہ ہی کا کیوں نہ ہو۔
کچھ دوستوں کے بقول ملالہ کے باپ کو وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں، اس سلسلے میں اتنا کہوں گا کہ کوئی بھی مرد دوسرے کو جاننے کا ویسا دعویٰ نہیں کر سکتا جیسا کہ اُس مرد کی بیوی اور بچے اُسے جانتے ہیں، کیونکہ ہم ہر وقت مختلف قسم کی گیٹ اپ میں ملبوس ہوتے ہیں، صرف بیوی اور بچے ہمیں اپنی اصلی حالت میں جانتے ہیں۔ میرا ایک مارکسسٹ دوست ہوا کرتا تھا۔ ہمارے سامنے عورتوں کے حقوق پر لمبے لیکچر دیتا تھا لیکن گھر جا کر وہ ایک روایتی دیسی شوہر ہوتا تھا، جو کھانے میں نمک کم یا زیادہ ہونے پر چیخنے لگتا تھا۔
ملالہ اس وقت دو ثقافتوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک طرف اُس کے والدین اور پاکستانی معاشرے کی اُس سے وابستہ توقعات ہیں، اور دوسری طرف اُس کے ذاتی خواب ہیں۔ اُس کا خاندان چاہے گا کہ وہ ایک پاکستانی انداز میں کسی مسلمان سے شادی کرے، شایدملالہ کو ایسا کچھ نہ منظور ہو، ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ اُسے اپنا کوئی انگریز یونیورسٹی فیلو اچھا لگا ہو۔ شاید وہ اُس سے شادی کرنا چاہتی ہو۔ شایدوہ مرد شادی کی خاطر اسلام قبول کرنے سے انکاری ہو جو والدین سے ہضم نہ ہو رہا ہو۔ مجھے امید ہے کہ ملالہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنے خوابوں اور سوچوں کو اہمیت دے گی۔
مغربی معاشرہ بہت تبدیل ہو چکا ہے، جس میں سے ایک چیز شادی کے ادارے کا ختم ہو نا ہے۔ مرد تو شادی سے بھاگتے ہی تھے، اب خواتین بھی شادی کی اُس قدر خواہشمند نہیں لگتیں جیسے پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ تعلیم کے بعد ملازمت، گھر بنانا، اپنے آپ کو معاشرتی طور پر مستحکم کرنا، اتنا عرصہ اکیلے رہنے کی وجہ سے خواتین کو اکیلے رہنے کی عادت ہو چکی ہوتی ہے، اُن کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ ایک اجنبی مرد کو گھر میں برداشت کریں۔ جہاں تک سیکس کا تعلق ہے اُس کے لیے شادی کی قطعی طور پر ضرورت نہیں ہوتی۔رہ گیا بچہ پیدا کرنے کا مسئلہ، تو میرے جاننے والی بہت سی خواتین ایسی ہی ہیں جنھوں نے ایک بچہ بھی پیدا نہیں کیا۔ اور اگر بچہ پیدا کرنا اتنا ہی ضروری ہو تو” سپرم بینک” سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
میرے بیٹے نے چند ماہ پہلے مجھے بتایا کہ اُسے اپنی ایک پرانی گرل فرینڈ کا فون آیا ہے اور وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے بچہ چاہیئے اور بچے کے باپ کی لسٹ پر تم سب سے اوپر ہو۔ مجھے بچہ دے دو، اس کے بعد تم طے کر لینا کہ تم بچے کے ساتھ باپ جیسا کوئی تعلق رکھنا چاہو گے یا یہ بچہ مکمل طور پر میرا ہو گا۔ اور اگر تم مجھے بچہ نہیں دینا چاہتے تو میں کوپن ہیگن جاؤں گی اور وہاں کے سپرم بنک سے مرضی کا سپرم استعمال کر لوں گی۔ میرے بیٹے نے بہت شکریہ ادا کیا کہ تم نے مجھے اس قابل سمجھ کر مجھے اتنی عزت دی، لیکن میں ابھی باپ بننے کے متعلق نہیں سوچا۔
مغرب میں یہ رویہ بہت زیادہ مقبو ل ہو رہا ہے کہ عورت اور مرد آپس میں تعلق رکھیں، بچہ پیدا کریں لیکن اپنے اپنے گھر رہیں، کیونکہ اکٹھا رہنے کے نتیجے میں جھگڑے ہوتے ہیں جو نہ صرف تعلق کو جلد ختم کر دیتے ہیں بلکہ بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔