العربیہ ٹی وی سے ایک انٹرویو میں سعودی عرب کے کراون پرنس شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ہمیں قانون سازی کرنے کے لیے احادیث کی بجائے قرآن پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ احادیث (حضرت محمد صلعم کے ارشادات) کو قانون سازی میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے کہا قرآن کی عصر حاضر کے مطابق تشریح ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ “حدیث رسول صل اللہ علیہ وسلم” ماخذ دین نہیں ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خبر واحد بلکہ خبر متواتر تک کو ‘سورس آف لاء‘ نہیں بنایا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے صراحت کے ساتھ کسی باب میں حکم موجود ہو تو ہو یا سنت متواترہ ہو تو ٹھیک وگرنہ ‘اجتہاد کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں گے‘۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ بیان وہابیت سے صریحاً انحراف ہے جس کا سعودی عرب اب تک پرچار کرتا آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب کوئی سنگساری، کوڑے مارنا اور مرتد کو قتل کی سزا اور ہم جنسیت پر کوئی سزا نہیں ہوگی۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان یا اس سے پہلے کے حکمرانوں کے دور میں کئی دانشور ، لکھاری حکمرانوں پر تنقید کرنے کے جرم میں قتل کردیئے گئے تھے اور کئی ایک جیل کی سلاخوں کے پیچھے کئی سالوں سے سڑ رہے ہیں۔
محمد بن سلمان کے انٹرویو کے بعد شیخ الازہر نے ان کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ فقہی آراء مقدس اور ناقابل ترمیم ہرگز نہیں ہیں، فقہی آراء کی تقدیس سے فکری جمود پیدا ہوتا ہے۔ قدیم فقہی مسائل و فتاوی جات دراصل مخصوص دور میں فقہاء کے اجتہاد و تجدید کی کاوشیں ہی تو تھیں۔ ستائیس27 اپریل کو کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے سعودی چینل العربیہ کو ایک طویل انٹرویو دیا جس میں انھوں نے سماجی اور معاشی اصلاحات پر مبنی ویثرن 2030 کے فریم ورک کی تفصیلات بتائیں جس کا آغاز 2015 میں کیا گیا تھا۔
اس انٹرویو میں انھوں نے سعودی عرب میں جاری وہابی ازم کے برعکس نئے جدید اسلامی قانون کے نفاذ کی بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام مسلمان فقہا اور دانشور قرآن اور سنت کی روشنی میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ لہذا میرا نہیں خیال کہ میں کوئی انوکھی بات کررہا ہوں۔
سعودی عرب میں وہابیت کا آغاز اٹھارویں صدی میں ہوا جب محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات کو حکمرانوں نے استعمال کرنا شروع کیا اور پھر پٹرو ڈالرز کے ذریعے پوری دنیا میں ان تعلیمات کو پھیلایا۔ چند سال پہلے تک سعودی عرب میں ایسی بات کرنے کے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
پرنس سلمان کا یہ بیان اسلامی تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا۔ اور اس ایک بیان نے پوری دُنیا کی وہابیت کا گلا گھونٹ دیا ہے کیونکہ وہابیت کی اساس ہی قرآن و حدیث ہے۔ وہ کسی امام کے اجتہاد کو نہیں مانتے۔ حنفی جو کہ امام ابو حنیفہ اور اُن کے شاگردوں کے اجتہاد پر مبنی ہے۔ اسی لیے مصر کے جامعہ الازہر والوں نے پرنس سلمان کی بات کی تائید کی ہے جو کہ خود ایک انوکھی بات ہے۔ کیونکہ مصری جامعہ الازہر اور سعودی عرب ایسے ہی ہیں جیسے کیتھولک اور آرتھوڈوکس مسیحی۔۔۔عام فہم انداز میں اتنا سمجھ لیں کہ پوری دنیا کے وہابی، سلفی شرعی مسائل کے معاملات میں مکہ کی طرف دیکھتے ہیں اور باقی فرقے جامعہ الازہر کی طرف۔
پرنس سلمان نے بہت بڑی بات کی ہے اگر کوئی عالم دین پاکستان میں ایسی بات کرتا تو شاید اب تک قتل ہوچکا ہوتا۔۔ اس نے صریحاً احادیث کی اہمیت سے ناصرف انکار کیا ہے بلکہ بخاری و مسلم کی صحت پر بھی سوال اُٹھایا ہے۔
یہ اسلام کے اندر ریفارمیشن کا پہلا قدم ہے۔ عیسائیت میں ریفارمیشن کوئی چار سو سال پہلے ہوئی تھی۔ کیونکہ عالم اسلام مغرب سے ویسے ہی دو تین سو سال پیچھے ہے سو اسلام کی باری اب آئی ہے۔ مگر کیونکہ ذرائع ابلاغ اب بہت تیز ہیں، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، کیبل وغیرہ اس لئے شاید تبدیلی کا عمل تیز ہو۔
Net News/mike zulu
http://www.asianews.it/news-en/Mohammed-Bin-Salman-attempts-to-reform-Islam-53085.html