حسن مجتبیٰ
پاکستان میں تاریخ نے اگر کوئی اب تک صحیح معنی میں جنرل پیدا کیا ہے یاکی ہے تو وہ جنرل رانی ہی تھی۔ جنہوں نے بڑے بڑے جرنیلوں، ماہی کرنیلوں کو چت کیا تھا وہ بھی پیٹ بھر کر سیریئس لی۔ اقلیم اختر رانی عرف جنرل رانی۔
جہان عالم میں اس کا تذکرہ ہے۔
جب یہ بات کر رہاہوں تو میرا مقصد جنرل رانی کی ہرزہ سرائی ہر گز نہیں بلکہ میں مارے انکے احترام کہہ رہا ہوں۔
جنرل رانی ہو ، ملکہ ترنم نورجہاں کہ اقلیم اختر رانی کے چھ بچوں میں سے دختر نیک اختر عروسہ عالم وہ اپنے اپنے رایئٹس میں بالکل فیمنسٹ تھیں اور ہیں۔ مری کی سیر کرتے اپنے ایس پی پولیس شوہر کے ہاتھوں تھپڑ مارنے کے بدلے میں برقعہ اتار کر وہیں آگ میں جھونک دینا بھی فیمنزم نہیں تھا تو کیا تھا؟
آج کل ایک بار پھر جنرل رانی کا تذکرہ ہے۔ پہلے اسد طور پر انکے گھر میں گھس کر حملہ ہوا۔ اس پر اسلام آباد سمیت ملک بھر میں احتجاج اور اس احتجاج میں تاریخ نے حامد میر اورمنحرف ساتھی صحافیوں، اور دوسری جانب فوج، فوجی جاسوسی محکموں اور ان کے حاشیہ بردارصحافیوں کو دو بدو لاکر کھڑا کیا ہے۔ یعنی کہ توسیع پسند یا ایکسٹینشن نواز اور ایکسٹینشن مخالف جرنیلوں کا جو جھگڑا ہے وہ اب سڑکوں پر آ چکا ہے۔
پکڑو، پکڑو مارو، غدار، غدار کی حامد میر اور منحرف ساتھی صحافیوں پر آوازیں ہیں۔ ملک میں مارشل لا لگے نہ لگے لیکن پاکستانی میڈیا پر مارشل لا لاگو ہے۔
ابھی کل ہی کی بات تھی کہ حامد میر ایک مسیحی خاتون رکن قومی اسمبلی کے مشرف بہ اسلام ہونے کی فضیلتیں بیان کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے مذہب میں بات ہی ایسی ہے کہ خاتون پارلیمنٹرین کھنچ کر چلی آئی۔ یعنی کہ یدخلون فی دین اللہ۔اب پتہ نہیں پاکستان میں سینکڑوں ہزاروں ہندو اور مسیحی بچیوں ونوجوان لڑکیوں کو جو زبردستی یدخلون فی دین اللہ کیا جار ہا ہے ان پر اب کون بولے گا۔
واشنگٹن کے بہت ہی بے مثل صحافی اور لکھاری خالد حسن نے لکھا تھا جنرل یحییٰ میں یہ دو باتیں بدرجہ اُتم انکی خوبیاں تھیں یعنی کہ ملکہ ترنم جیسی معرکہ آرا خواتین یا ایپک وومین سے رومانوی تعلق اور دوسرا شراب نوشی۔ جیسے شیخ ایاز نے کہا تھا مجھے مرزا غالب کی شراب نوشی پر نہیں انکی بادشاہ کی قصیدہ گوئی پر اعتراض ہے۔
میڈم نور جہاں نے خالد حسن کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اوہائیو کے ہسپتال میں انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ یحییٰ خان نے 1971 کی جنگ میں راولپنڈی میں اپنے بنکر میں ان کو یعنی میڈم کو شادی کی پیشکش کی تھی جو کہ بہرحال میڈم نے معذرت کرلی تھی یہ کہتے کہ “صاحب اب بہت دیر ہو چکی ہے”۔
جنرل رانی کے آغا جانی یعنی محمد یحییٰ خان جس کے لیے ان کے اقتدار پر قبضہ کر نے پر ایک سادہ لوح اونٹ بان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا “بیٹا کہتے ہیں اس دفعہ بڑا بھلا مانس ملک کا صدر ہوا ہے۔ الیکشن کروا رہا ہے۔اس نے ون یونٹ بھی توڑنے کا اعلان کیا ہے“۔ تو اس پر اس سادہ لوح اونٹ بان کے بیٹے نے پوچھا تھا: “ابا اس بھلے مانس ملک کے صدر کا نام کیا ہے بھلا“۔تو اس پر اونٹ بان نے بیٹے سے کہا تھا نام اس اچھے صدر کا گھر میں نہیں لیا جا سکتا ۔“نام ہے اسکا یحایاخان“۔
بھٹو نے اپنی کتاب “اگر مجھے قتل کیا گیا “ میں لکھا “میرا تعلق جنرل رانی سے منسوب کیا جا رہاہے۔ وہ جنرل ضیا سے پوچھو کہ جو جنرل رانی کے شوقین ہیں۔
بڑا تماشہ لگا ہے۔ اب کے حامد میر نے اپنی پٹاری سے جنرل فیض والا سپ نکالا ہے۔ اور وہ بھی زخمی سپ۔ مگر اس میں رولا یہ ہے اور رونا بھی کہ اس گندی گیم میں خواتین کو گھسیٹا جارہا ہے۔
یحییٰ خان کے تعلقات جنرل رانی سے ہوں کہ ملکہ ترنم نورجہاں سے، جنرل فیض کی شادی سے باہر تعلقات جرنل رانی کی بیٹی سے یعنی کہ کون کسی کے ساتھ سویا ، کہ جنرل فیض کی بیوی نے اسپر اسپائوسلُوواجولیمس کیا یا غیرت کے نام پر عمد قتل جو کہ بہرحال کرمنل چیز تو ہے۔ لیکن جو بات کوئی نہیں کر رہا وہ ہے ان بلڈی وار جرنیلوں کی جنریشن اور یحییٰ خانی فوجی ٹولے کے خلاف انسانیت جرائم جن کے ہاتھوں سابقہ مشرقی پاکستان میں تیس لاکھ بنگالی خواتین و مرد قتل، دو لاکھ عورتوں کا ریپ ،اور ایک کروڑ لوگوں کو ملک بدر ہونا پڑا۔ اور یہ مسلسل ایکشن ری پلے ہور ہے ہیں۔ پھر اس کیا فرق پڑتا ہے کہ کل مشرقی بنگال تھا، آج بلوچستان، خیبر پختونخوا اور اسکے شمالی وزیرستان کے پنجاب کا اوکاڑہ ملٹری فارمز، گلگت بلتستان یا کراچی سمیت سندھ ہوں۔
♠