علی اکبر محتشمی پور ایک ایرانی مذہبی اسکالر ہونے کے علاوہ سفارت کار بھی تھے۔ ان کا 74برس کی عمر میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے کے سبب انتقال ہو گیا۔ وہ چار برس تک ایران کے وزیر داخلہ بھی رہے تھے۔
علی اکبر محتشمی پور کا ایران کے سن 1979 میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ انہی کی کوششوں سے سن 1970 کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ کے مسلم انتہا پسند اور عسکریت پسند حلقوں کے درمیان اتحاد کا معاملہ کامیابی سے طے پایا تھا۔ لبنان کی شیعہ سیاسی تحریک اور عسکری گروپ حزب اللہ کی تشکیل اور قیام میں بھی وہ سرگرم اور متحرک تھے۔
محتشمی پور کا دایاں ہاتھ ایک بم حملے میں ضائع ہو گیا تھا۔اس بم حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جاتا تھا۔ ان کی رحلت تہران کے ایک ہسپتال میں ہوئی۔ ان کو ایران کی اعلیٰ قیادت بشمول سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی کی جانب سے غیر معمولی خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
ایران میں رضا شاہ پہلوی کی آمریت کے خاتمے کا سبب بننے والے اسلامی انقلاب کے بعد وہ ان کوششوں میں شریک تھے جن کی وجہ سے موجودہ ایران کے نیم فوجی اور طاقتور ادارے پاسدارانِ انقلاب کی بنیاد رکھی گئی۔ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات دوسرے ممالک میں بھی پھیلانے کے بڑے حامیوں میں شامل تھے۔
ایران کی عدلیہ کے موجودہ سربراہ ابراہیم رائیسی کا کہنا ہے کہ محتشمی پور ان اولین افراد میں شمار ہوتے ہیں جو صیہونیت نواز حکومت کے خلاف لڑائی کا حصہ تھے۔ وہ عراق میں گرفتار کیے گئے تھے لیکن کسی طرح جیل سے نکل کر اُس وقت فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں مقیم آیت اللہ خمینی کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو ئے تھے۔
علی اکبر محتشمی پور کو آیت اللہ خمینی نے سن 1982 میں شام میں سفیر مقرر کیا تھا۔ اِس دور میں لبنان کی داخلہ سیاست پر شام کا گہرا اثر و رسوخ تھا۔ ان کی سفارت کاری کے دوران انہوں نے پاسدارانِ انقلاب کے اس علاقے میں کیے گئے عسکری آپریشن کی پلاننگ کی تھی۔
وہ تین برس سے زائد عرصے تک شام میں سفارت کاری کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کے دمشق میں بطور سفیر تعیناتی کی مدت کے دوران ہی سن 1983 میں لبنان میں امریکی سفارت خانے پر بم حملے کیے گئے تھے اور اس میں کم از کم تریسٹھ افراد مارے گئے تھے۔
امریکا نے اس حملے کا الزام حزب اللہ پر عائد کیا تھا۔ حزب اللہ تنظیم اِس اور ایسے دوسرے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتی ہے۔ وہ ابتدا ہی سے فلسطین کی تحریکِ آزادی کے حامی اور اسرائیلی ریاست کے شدید مخالف تھے۔
سن 1990 کی دہائی میں ان کے سیاسی نظریے میں تبدیلی دیکھی گئی اور وہ ایران کے اعتدال پسند سیاست دان حلقے کی جانب مائل ہو گئے۔ ان کی کوشش تھی کہ حکمران مذہبی حکومت میں تبدیلی پیدا کی جائے اور اس کوشش میں انہوں نے میر حسن موسوی اور مہدی کروبی کی کھلی حمایت کا اعلان بھی کیا۔
سن 2009 کے متنازعہ صدارتی الیکشن کے مخالف دھڑے کا حصہ تھے اور انتخابات کے نتائج کی مخالفت میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک گرین موومنٹ کے مظاہروں کے حامی تھے۔ وہ تشدد کے مقابلے میں پُرامن عملی جد و جہد کے حامی خیال کیے جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی طاقت عوام کی خواہش کے مقابلے میں کھڑی نہیں رہ سکتی۔
dw.com/urdu