خالد تھتھال ۔ناروے
ایک دوست نے لکھا ہے کہ انگلستان میں 1500 مساجد ہیں جب کہ ہندو مندروں کی تعداد محض 187 ہے لیکن مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ اسلاموفوبیا کا نشانہ بن رہےہیں۔کیا یہ بات درست ہے؟
انگلستان کی مساجد بھلے ہی رقبے،پیسے اور اختیار میں بہت ہی کم ہوں، لیکن غیر مسلموں کے خلاف نفرت پھیلانے میں کسی طور بھی کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہیں۔ سکول میں کچھ بھی مسئلہ ہو تو یہ مساجد ہی ہیں جہاں فیصلے ہوتے ہیں کہ کس سکول میں کس ٹیچر کو نکلوانا ہے، یہ انگلستان کی مساجد کی ہی دین ہے کہ داعش کی اسلامی خلافت کے لیے جا کر لڑنے والوں کی تعداد دوسرے ممالک سے جانے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔جہادی جان جو کیمرے کے سامنے لوگوں کے گلے کاٹتا تھا، اس کا تعلق بھی انگلستان سے ہی تھا، اور اپنی بساط کے مطابق ایسا ہی کردار دوسرے مغربی ممالک میں واقع دوسری مساجد کر رہی ہیں، فرانس کے ٹیچر کا قتل کا فیصلہ بھی ایک مسجد میں ہی ہوا تھا۔
مجھے اس بات کا تو پتہ نہیں کہ انگلستان میں کتنی مساجد ہیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ہر جگہ اپنی مسجد کھڑی کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ناروے کا شہر اوسلو ایک بہت ہی چھوٹا شہر ہے، چند سال پہلے یہاں پر صرف پاکستانیوں کی مساجد کی تعداد تیس سے اوپر جا چکی تھی، ترکی، صومالیہ، ایران وغیرہ کی کتنی مساجد ہیں میں اُس سے بے خبر ہوں۔ مغربی ممالک میں کئی مساجد کسی نہ کسی اسلامی ملک کے رابطے میں ہیں اور اُن ممالک کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو ہیں، اس سلسلہ میں ایرانیوں اور ترکی کی مساجد کا بہت اہم کردار ہے، سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کو اپنی مساجد کو متحرک کرنے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی، لیکن جن مساجد میں ان ممالک کا پیسہ لگا ہوتا ہے، وہاں پر مولوی بھی انھیں کی مرضی کا ہوتا ہے، مسجد میں کیا کہا جانا ہے، کتابیں کس قسم کی ہیں، وہ بھی انھیں ممالک کے صاحبان اقتدار طے کرتے ہیں۔
مسلمان خواہ کسی عمارت کو کمیونٹی سنٹر کہیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کا ہر ادارہ اُسی طرح مسجد ہی ہوتا ہے جیسے پاکستان میں ہر مضمون کی نصابی کو دینیات کی کتاب ہی سمجھنا چاہیے۔ مسلمانوں تو اگر کسی عمارت کو اسلامک کلچر سنٹر کہیں گے تو وہ بھی مسجد ہی ہو گا، کیونکہ مسلمانوں خصوصی طور پر دیسی مسلمانوں کے پاس تو کچھ ایسا ہی ہی نہیں جسے وہ اسلامی کلچر کہہ سکیں۔ رقص و موسیقی حرام، شاعری حرام، رہ جاتی ہے نعت، حمد اور قرآت۔ لیکن ہندوؤں کے تو مندروں میں بھی کلچر ہوتا ہے، رقص و موسیقی ہوتی ہے، بھجن گائے جاتے ہیں، آرتی اتاری جاتی ہے۔اور یہی کچھ سکھوں کا حال ہے جن کی عبادت ہی کیرتن ہے۔
مغربی ممالک میں اگر اسلامو فوبیا ہوتا تو ایک ملک میں اتنی مساجد کیسے بن گئیں۔شائد یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے انگلستان میں مساجد کی تعداد بڑھی ہے لیکن آبادی تو پاکستان میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی بھی بڑھتی ہے، لیکن اُن کی عبادت گاہیں نہیں بڑھتیں۔ میرےبچپن میں جہلم دریا کے پل کے پاس ایک چرچ تھا جو انگریزوں کے زمانے میں بنا تھا، جہاں تک مجھے علم ہے وہاں ابھی تک ایک ہی چرچ ہے، شائد مسیحی خواتین بانجھ ہیں۔
البتہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں، ہندو، سکھ، بدھ، زرتشتی وغیرہ، لیکن نفرت صرف مسلمانوں سے کیوں، اگر ہم ایمانداری سے اس سوال کا جواب تلاش کریں تو شائد ہمیں سمجھ آ سکے کہ اسے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، وگرنہ رونے پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، مسلمانوں نے مظلومیت کارڈ جس قدر استعمال کیا ہے، یہ کارڈ اب ایکسپائر ہو چکا ہے۔
مسلمان اتنے بیوقوف نہیں ہے کہ کفار سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار یوں کھلے انداز میں کریں۔ البتہ چند سال پہلے ایک چھپے ہوئے کیمرے سے ایک مسجد کو فلم کیا گیا، جہاں پر دکھایا گیا کہ مسلمان کیا سوچتے ہیں۔ اس میں انجم چوہدری بھی موجود تھا، جو ٹوئن ٹاور اڑانے والوں کو ہیرو بنا کر ذکر کر رہا تھا ۔ اس کے بعد بھی کئی مساجد فلم کی گئیں، جہاں مقامی معاشرے اور لوگوں کے خلاف نفرت سکھائی جاتی ہے، ایک میں بچوں کو مارا جا رہا تھا، لیکن ایسی جگہوں پر گھسنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بظاہر یہی مسجدیں مذہبی رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی جیسے خوبصورت الفاظ استعمال کرتی ہیں، اور ریاست سے پیسے وصول کرتی ہیں۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ گیری کبل نامی استاد کے خلاف مہم چلائی گئی اور اُس سے معافی منگوائی گئی۔
فرانس کے حوالے سے ایک اخبار کو کاپی پیسٹ کر رہا ہوں
Also on Tuesday, the French government ordered a mosque to close for sharing videos on Facebook calling for action against Mr Paty and sharing his school’s address in the days before his death.The Pantin mosque, which has about 1,500 worshippers and is situated just north of Paris, will close for six months on Wednesday. The mosque expressed “regret” over the videos, which it has deleted, and condemned the teacher’s killing.
مغربی ریاستوں کا یہ مسئلہ ہے کہ ایک تو وہ نسل پرستی کے الزام سے ڈرتی ہیں، چنانچہ مسلمانوں سےمتعلقہ خبروں کو دبایا جاتا ہے، ناروے میں تو اب کوئی بھی اخبار کسی بھی کاروائی کے سلسلے میں محرم کا پس منظر یا عقیدہ نہیں بتاتیں، کہ مسلمانوں سے مزید نفرت نہ پڑھے، اگر ایک صومالین نے اوسلو میں زنا بالجبر کیا ہے تو خبر یوں ہو گی کہ اوسلو میں ایک مرد نے کسی لڑکی کو ریپ کیا ہے۔ بائیں بازو بھی اسلام کے عشق میں مبتلا ہے، مسلمانوں کی ہر جا بے جا حمایت کرنا اُن کا فرض ہے، یوں لگتا ہے کہ اُن کے نزدیک سرمایہ داری نظام نے جو اشتراکی نظام کو شکست دی ہے، اُس کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک مقدس اتحاد کیا جائے، اور ایک اور بات کہ مغربی ریاستیں اب مسلمانوں سے ڈرنا شروع ہو گئی ہیں، کیونکہ مسلمان دھماکے کرتے ہیں، قتل و غارت کرتے ہیں۔
چارلی ہیبڈوتو ابھی کل کی بات ہے، اب کسی مائی کے لال میں جرأت نہیں ہےکہ وہ شیطانی آیات لکھے اور لکھ بھی دے تو کوئی بھی چھاپنے کو تیار نہیں ہو گا۔ ناروے میں یہ کتاب ترجمہ ہوئی تو ناشر پر قاتلانہ حملہ ہوا، مجرم نہیں پکڑا گیا لیکن شک یہ تھا کہ اس کےپیچھے ایران ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک نے جب اپنے آئین وضع کیے، قوانین بنائے تب وہ ایک اور معاشرہ تھا، اب انھی قوانین کو مسلمان استعمال کرتے ہوئے اُن معاشروں کو اسلامی بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں، کبھی شریعت پٹرولنگ ہوتی ہے، کبھی “نامناسب لباس” پہنے ہوئے مقامی خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
مسلمان واحد گروہ ہےجو دوسروں پر غلبہ چاہتا ہے، جنگ طورس میں فرانسیسی جرنیل کے ہاتھوں شکست کو مسلمان ابھی نہیں بھول پائے جس میں اُن کا سپہ سالار غافقی بھی مارا گیا تھا، اور یہی یورپ میں متحرک حزب التحریر اور اخوان المسلمین کا کہنا ہے کہ اب جنگ تلوار سے نہیں بلکہ”پرام” سے ہو گی، اتنے بچے پیدا کرو کہ مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہو جائے۔چنانچہ مسلمان بیشک قانون کے اندر رہ کر اپنی جدوجہد کر رہےہیں، مغربی معاشروں کا اسلامیانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن عام شہری اب رد عمل دکھا رہے ہیں، اور اسلامو فوبیا کا رونا اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کرے گا۔
♥