اسرائیل میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک ووٹ کی اکثریت سے بارہ سالوں سے جاری بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ کردیا ہے اور اس کی جگہ اپوزیشن کی جماعتوں پر مبنی ایک اتحاد حکومت بنانے جارہا ہے۔ اپوزیشن رہنما” نفتالی بینٹ “نئے وزیراعظم ہوں گے ۔ ان کی وزرات عظمی دو سال کے لیے ہوگی۔ اگر اس دوران اتحادی جماعتوں میں اختلافات پیدا نہ ہوئے تو پھر اگلے دوسال کے لیے دوسری اتحادی جماعت کے رہنما” یائر لیپڈ” وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ دونوں رہنما بنجمن نیتن یاہو سے زیادہ بنیاد پرست ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی تھی اگر اسرائیلی پارلیمنٹ میں موجود مسلمان ارکان اسمبلی اس اتحاد کے ساتھ شامل نہ ہوتے۔ اس پارلیمنٹ میں اسلامک موومنٹ نامی جماعت کے چار مسلمان ارکان بھی ہیں جن کی قیادت منصور عباس کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی موجودہ پارلیمنٹ میں کل 120 ارکان میں سے پندرہ ارکان مسلمان ہیں۔ اگر منصور عباس اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ نہ ملتے تو بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا۔
اسرائیل میں پچھلے دو سالوں سے چار دفعہ الیکشن ہوئےہیں جس میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل نیا اتحاد کب تک چلتا ہے۔ کیا تمام افراد اپنے اپنے بنیاد پرست نظریات کو نظر انداز کرکے ایک سیکولر اسرائیل کے لیے کام کریں گے؟ ہمارے بائیں بازو کے ایک دوست تو اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کا واحد حل یہی بتاتے ہیں کہ مسلمان، یہودی اور مسیحی تمام لوگ اس علاقے میں ہنسی خوشی رہیں جس کا امکان مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتا۔
اب یہ علم نہیں کہ حماس یا الفتح کے ارکان انہیں مسلمان سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔ ہمارے بائیں بازو کے دوست اسے ایک دہشت گرد تنظیم کہنے کی بجائے اگر مگر اور تاریخ کا سہارا لیتے ہیں اور ان کے لیے جمہوریت، سیکولرازم اور برابری کی بنیاد پر حق دینے کی بات کرتے ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ حماس ان سب نظریات کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتی ہے اور اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے سے کم کسی بات پر راضی نہیں اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے راکٹوں سے حملے بھی کرتی ہیں اپنے شہری جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے بھی مرواتی ہے اور پھر جشن بھی مناتی ہے کہ ہم نے دشمن کو مزا چکھایا ہے۔
شعیب عادل